Thursday, November 4, 2010

Maulana Haq Nawaz Jhangvi Shaheed Rh.A.



Maulana Haq Nawaz Jhangvi graduated as an Aalim at the under age of 19. However instead of thinking "I am too young and inexperienced to do anyting leave it to the top scholars," he dedicated his whole life protecting the honour of the Prophet (SAAW), his beloved companions and Prophets pure wifes, through his speeches and books.
السلام علیکم
اس مرتبہ کی دو باتیں میں آپ چونک اٹھیں گے۔ کیونکہ ناول سیلاب حق نواز ایک حقیقت ہے ، ایک عظیم شخص نے آج سے پندرہ سال پہلے ایک بہت بڑے کام کا بیڑا اٹھایا، اسے کن مراحل سے گزرنا پڑا اور آج بھی گزر رہا ہے، میں نے اس کی تصویر اس ناول میں کھینچی ہے، واقعات میں تھوڑا ردوبدل کر کے حقیقت کو بیان کردیا ہے ، اس عظیم شخص کا مشن کیا ہے ، جب وہ مشن میرے سامنے آیا تو میں بھی اس کے مشن میں شریک ہوگیا، اس ناول کا باب ( تخریب کاری) غور سے پڑھئے گا، اس میں ایک جلوس کا ذکر ہ جو کہ میرے شہر سے شروع ہوا اور میں بھی اس میں شریک تھا، جو کچھ گزری اس میں، میں بھی شامل تھا ۔ موت آنکھوں کے سامنے ناچ رہی تھی اور آپ کا یہ بندہ ناچیز بے کار مصنف جو کچھ قلم سے لکھتا ہے اس کی عملی تصویر بنا گولیوں کی چھاؤں میں اس انداز میں کھڑا تھا کہ نہ دائیں حرکت کرسکتا تھا نہ بائیں، نہ نیچے نہ اوپر، نہ آگے نہ پیچھے، کیونکہ چاروں طرف میرے ساتھ نوجوان کھڑے تھے جوکہ میری طرح موت کے منہ میں تھے، میرا بچپن کا دوست بھی میرے ساتھ تھا، ہماری زبانوں پر کلمہ طیبہ اور یا اللہ مدد کی پکار تھی، آپ جب ناول کے آخر میں پہنچیں گے تو آپ بھی یہ خواہش کریں گے کہ کاش ایسے مشن میں آپ بھی شریک ہوں اور جنت آپ کو دیکھ رہی ہو کیوں؟ 


خطرناک آواز
پندرہ سال پہلے فون کی گھنٹی بجی، تھانہ کوتوالی جھنگ پور کے S.H.Oنے ریسیور اٹھایا، دوسری طرف کی بات سنتے ہی اس کے چہرے پر حیرت کا ایک سمندر نظر آرہا تھا، تمام عملہ آفیسر کی طرف متوجہ ہوگیا، آفیسر کے چہرے پر حیرت کا ایک سمندر نظر آرہاتھا۔
آفیسر کے چہرے کی اڑتی ہوئی رنگت دیکھ کر سب گھبرا گئے۔
سر خیریت تو ہے ، آپ اتنے گھبرا گئے ہیں؟ ایک حوالدار نے پوچھا۔
’’
باہر چل کر تانگہ رکواؤ ، محلہ صحابہؓ نگر کے ایک شخص کو ابھی اور اسی وقت گرفتار کرنا ہے ، جلدی کرو، نہ جانے کیا ہونے والا ہے ، کیا وہ شخص پاگل ہے ، شیروں کے منہ میں ہاتھ ڈال رہا ہے، ضرور اس کا دماغ خراب ہے۔S.H.Oنے اٹھتے ہوئے کہا۔
کسی شخص کو گرفتار کرنا ہے ، ایک کانسٹیبل نے اٹھتے ہوئے کہا۔
تم جاکر تانگہ رکواؤ ، ابھی پتا چل جائے گا ۔ آفیسر نے پیٹی کستے ہوئے کہا۔
ایک سپاہی نے تانگہ رکوایا ، S.H.O آگے بیٹھا ، اس کے ساتھ ایک حوالدار ، تانگے والا بم کے اوپر بیٹھ گیا، تین چار سپاہی پیچھے بیٹھ گئے، دس بارہ سپاہی ہاتھوں میں ڈنڈے لئے تانگے کے پیچھے لپکے، تانگہ چل پڑا ، چھے سات منٹ بعد پولیس محلہ صحابہؓ نگر کی جامع مسجد فاروق اعظمؓ کے سامنے اتری۔ جمعہ کی نماز ہوچکی تھی ، لوگ اپنے گھروں کو جارہے تھے، ایک کانسٹیبل جوتے اتار کر مسجد میں داخل ہوا، وہ صفحوں کو چیرتا ہوا امام کے مصلےٰ تک جا پہنچا، ایک ساڑھے چار فٹ قد کے پتلے دبلے نوجوان ، سیاہ ڈاڑھی والے مولوی کو گریبان سے پکڑ کر اٹھایااور ہتھکڑی ہاتھوں میں ڈال دی۔
چلو۔ باہر نکلو، اس نے مولوی کو دھکا دیتے ہوئے کہا۔
مولوی کئی نمازیوں کے اوپر گِرا، نمازی دیکھتے رہ گئے، کئی ایک نے احتجاج کیا کہ یہ کیا کر رہے ہو۔
صبر کرو، یہ تو ہونا ہی تھا اور آگے آگے ہوگا ۔ مولوی نے سپاہی کے ساتھ چلتے ہوئے کہا:
تم نے ’’ش ‘‘گروپ کے خلاف بات کی ہے ؟ S.H.Oنے مولوی کو تھپڑ مارت ہوئے پوچھا۔
’’
کی ہے اور کروں گا، حق کی اس آواز کو کوئی نہیں دبا سکتا مولوی نے تانگے میں بیٹھتے ہوئے کہا‘‘۔
دو دن تھانے میں رہوگے ، تین چار چھتر کھاؤ گے تو دماغ درست ہوجائے گا، کیا تم نہیں جانتے کہ ’’ش ‘‘ گروہ کتنا طاقت ور ہے، فوج ، پولیس، حکومتی ڈھانچہ کے تمام بڑے ذمہ دار افراد ’’ ش‘‘ گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، ملک کے تمام بڑے بڑے سرمایہ دار، جاگیردار، ایم این اے، ایم پی اے، گورنر، وزراء، سیاست دان اور مذہبی لیڈر سب کا تعلق ’’ش‘‘ گروہ سے ہے، ان کے ایک اشارے پر تمہاری لاش بھی غائب کردی جائے تو کسی کو قیامت تک نہ ملے کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟
نہیں تھانیدار صاحب ، میں پورے ہوش میں ہوں، میں نے جس مقدس مشن کا آغاز کیا ہے ،جس عظیم کام کا بیڑا اٹھایا ہے نیک نیتی سے اٹھایا ہے، اس میں میری کوئی ذاتی غرض شامل نہیں ہے ، نہ کوئی سیاسی غرض، آج جو آواز ، جو حق کی آواز میں نے بلند کی ہے ، کل یہی آواز ملک کے ہر گاؤں ، ہر قصبے ، ہر شہر، ہر ضلع، ہر صوبہ سے بلند ہوگی، دنیا کی کوئی طاقت اس آواز کو نہیں روک سکے گی، حتی کہ یہ آواز ملک میں پھیلنے کے بعد تمام اسلامی ممالک میں گردش کرنے لگے گی اور سب کو میرے اس مشن کا ساتھ دینا پڑے گا ۔ مولوی نے گرم آواز میں کہا۔
اس کی آواز کی گرج اور جوش سن کر تمام پولیس والے لرز اٹھے، اس کی آواز میں شعلہ بیانی تھی، گرج تھی، جوش کا سمندر تھا، اس آواز کو اگر کسی بڑے مجمع میں سنوا دیا جائے تو مجمع مقرر کے اشاروں پر ناچ اٹھے، چند لمحوں کے لئے پولیس والے خاموش ہوکر رہ گئے۔
پھر بھی چاہے تمہاری نیت کچھ بھی کیوں نہ ہو، تمہاری آواز خطرناک ہے، جو کچھ تم نے کہا ہے ، آج تک پاک وہند کی تاریخ میں کسی نے نہیں کہا، تمہاری یہ آوازشہر کے امن کو تباہ کردے گی، تم اپنی اس آواز کو بند ہی رکھو تو بہتر ہے ، ورنہ ’’ش‘‘ گروہ تمہیں مروا ڈالے گا۔ S.H.Oنے کہا۔
جو رات قبر میں آنی ہے وہ بارہ نہیں آسکتی ، موت کا ایک وقت طے ہے ، وقت سے پہلے موت نہیں آسکتی ، جب تک اللہ کا حکم نہ ہو کوئی کسی کو نہیں مار سکتا ، زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ، میں کسی ’’ ش ‘‘ گروہ سے نہیں ڈرتا، میں نے سوچ سمجھ کر قدم اٹھایا ہے ۔
جانتے ہو ’’ ش‘‘ گروہ کے آرڈر عدالتوں کے ججوں تک پر چلتے ہیں، اگر ’’ش‘‘ گروہ چاہے تو تمہاری ضمانت بھی نہ ہو اور تم جیل میں سڑتے رہو۔ ’’ آفیسر نے کہا‘‘۔
’’
ہتھکڑی ، بیڑی، تھانہ، چھتر، تشدد، جیل، پھانسی، ان میں سے کوئی چیز میرے مقدس مشن کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی، دنیا میں جتنے بھی انبیاء کرام آئے تمام نے قوم کا ظلم سہا، سب سے زیادہ تکالیف حق کی راہ میں آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں، صحابہؓ پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دئے گئے، حضرت خبیبؓ کو انگاروں پر لٹایا گیا، بلالؓ کے ہاتھوں میں کیل گاڑے گئے، جلتے کوئلوں نے بلالؓ کی چمڑی ادھیڑ لی، مگر صحابیؓ رسول نے حق کا دامن نہ چھوڑا۔ سمعیہؓ کو دو ٹکڑے کردیا گیا، ایسے بے شمار واقعات تاریخ اسلام میں بھرے پڑے ہیں، آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :
’’
میری امت میں ہر دور میں ایک گروہ حق پر ہوگا‘‘
صحابہؓ نے پوچھا وہ کون سا گروہ ہوگا۔ اس کی شناخت کیا ہوگی، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میرے اور تمہارے راستے پر چلے گا، میں بھی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے گروہ حق کا ایک فرد ہوں، میں نے جس مشن کا بیڑا اٹھایا ہے میں اس کو پورا کر کے چھوڑوں گا، جان جاتی ہے چلی جائے۔’’ مولوی نے پر جوش انداز میں کہا‘‘۔
مولوی سیدھی سادھی نماز پڑھاؤ، پانچ وقت نماز پڑھاؤ، چندا جمع کرواور سو جاؤ، تمہیں کیا پڑی ہے ان جھگڑوں میں پڑنے کی۔’’S.H.Oنے کہا۔
منبرومحراب صرف نماز پڑھانے اور چندا جمع کرنے کے لئے نہیں، ، یہ منصب بہت اہم ہے ، اس کے ذریعے پیغمبروں اور صحابہؓ کرام ، خلفائے راشدینؓ نے کفار سلطنتوں کے تختے الٹ دیئے، حق بیان کیا، مولویت نام ہے جہاد کا، مولویت نام ہے بہادری کا، مولویت نام ہے کفر کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھنے کا، مولویت نام ہے باطل قوت سے ٹکرانے کا، مولویت نام ہے میدان عمل میں کود پڑنے کا ، جب بھی اسلام پر آنچ آئے ، مولویت کو کفن باندھ کر میدان میں آجانا چاہئے، جب بھی ختم نبوت کے منکر شور مچائیں ، ان کی زبانیں گدی سے کھینچ لینے کے لئے، مولویت کو خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نقش قدم پر چلنا چاہئے، مولویت کو حضرت خالد بن ولیدؓ سیف اللہ کی تلوار بن جانا چاہئے، مولویت کو وحشی بن حربؓ کے نقش قدم پر چلنا چاہئے، جس طرح انہوں نے جھوٹی نبوت کے دعویٰ دار مسیلمہ کذاب کو چودہ سو سال پہلے جہنم رسید کیا تھا، جس طرح صحابہؓ نے زکوٰۃ کے منکروں کے خلاف گھوڑے دوڑا دیئے تھے، علیؓ جیسا شیر ، شیر خدا زکوٰۃ کے منکروں کے لئے میدان میں آیا، خلیفہ وقت ابوبکرؓ کے گھوڑے کی باگ پکڑی اور کہا کہ آپؓ مدینہ سے باہر نہ نکلیں، زکوٰۃ کے منکروں سے ہم خود نبٹ لیتے ہیں، آج کے دور میں لوگوں نے مولویت کو صرف مسجد تک محدود کر کے رکھ دیا ہے ۔خود مولویت کا خاصہ طبقہ مسجد اور حجرے میں قید ہوکر رہ گیاہے، ہر طرف کفر سر اٹھائے کھڑا ہے ، مولویت سوئی پڑی ہے، لیکن میں اپنے مشن کے سلسلے میں کٹ مر تو سکتا ہوں پر لمبی تان کر نہیں سو سکتا۔
’’
ہوں نیچے اترو‘‘ کوتوالی کے سامنے تانگہ رکواتے ہوئے S.H.Oنے کہا۔
سپاہی بندوقوں کے بَٹْ اس کی کمر پر مارتے ہوئے اسے اندر لے گئے، اسی وقت فون کی گھنٹی بجی، S.H.Oنے ریسیور اٹھایا، دوسری طرف کوئی اہم آدمی تھا۔
’’
گرفتاری ہوگئی؟‘‘ ڈپٹی کمشنر آف جھنگ پور نے پوچھا۔
آج رات اس مولوی کا دماغ درست کرو، صبح میرے پاس لے آنا، پھر میں اس سے پوچھوں گا کہ ’’ ش‘‘ گروہ کے بارے میں کیا خیال ہے ، اس طرف سے نفرت آمیز لہجے میں کہا گیا۔آپ کے حکم کے مطابق عمل ہوگا سر، تھانیدار نے کہا۔
آج رات تمہاری خبر نہیں مولوی، حوالدار نے اسے قید کرتے ہوئے کہا۔
میں تمہارے تشدد سے ڈرکر اپنا مشن نہیں چھوڑ سکتا ۔ ’’ رات ہولینے دو‘‘ حوالدار نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
آدھی رات کے وقت سلاخوں والے دروازے کا تالا کھلا اور حوالدار پانچ لمبے چوڑے ، ہٹے کٹے سپاہیوں کے ہمراہ اندر آیا، ان کے ہاتھ میں چمڑے کے چابک ، ڈنڈے ،لوہے کے سریے اور ہیٹر وغیرہ کے علاوہ بھی بہت سی اشیاء تھیں جو تشدد کے لئے استعمال ہوتی تھیں۔
کیوں مولوی، کچھ عقل ٹھکانے آئی، حوالدار نے پوچھا۔
تم اپنا کام کرو، حق کی خاطر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کی وادی میں پتھر کھائے ، خون مبارک سر سے بہتا ہوا نعلین مبارک تک آگیا، طائف کے غنڈے پتھر مارتے جاتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھک کر گر پڑتے تو پھر بغلوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا کرتے پھر پتھر مارتے، اسی حالت میں جبرائیل ؑ تڑپ کر آیا اور کہا آقا اگر آپ حکم کریں تو اس قوم کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں؟ فرمایا جبرئیل ہوسکتا ہے اسی میں سے کل کوئی ایمان لے آئے۔ میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں ، پولیس کے سپاہیومیرے آقا کا عمل دیکھو اور پھر مجھ سے سوال کرو کہ عقل ٹھکانے آئی ہے یا نہیں ۔
اس کا مطلب ہے گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلے گا، اس کو پکڑ کر چارپائی کے ساتھ جکڑ دو، حوالدار نے حکم دیا۔
چارپائی کھڑی کر کے اسے اس کے ساتھ الٹا لٹکا دیا گیا، ہیٹر جلاکر اس کے سر کے نیچے رکھ دیا گیا، آہستہ آہستہ اس کا دماغ کھول رہا تھا ، حوالدار نے سیگریٹ ہیٹر پر سلگایا اور مولوی کا جسم داغنا شروع کردیا، ایک سپاہی پنڈلیوں پر ڈنڈے مار رہا تھا، کافی دیر تک اس طرح ہوتا رہا، پھر ہیٹر ہٹا دیا گیا کیونکہ وہ بے ہوش ہوچکا تھا، اسے کھول کر زمین پر ڈال دیا گیا۔ پولیس والے ہنستے مسکراتے باہر نکل آئے اور تالا لگا دیا۔ صبح نو بجے اسے اٹھایا، اس کی حالت بہت ردی تھی، ہتھکڑی لگا کر جھٹکا مارا گیا، وہ لڑکھڑاتا ہوا دیوار سے ٹکرایا۔ اس کے سر پر چوٹ آئی، وہ گرنے کے قریب ہی تھا کہ ایک سپاہی نے بازو سے پکڑتے ہوئے زناٹے دار تھپڑ اس کے کان پر مارا۔ دوسرے نے ڈاڑھی پکڑ کر زور زور سے دائیں بائیں ایسے ہلائی جیسے کوئی گھاس ہاتھ سے توڑ رہا ہو، دھکے دیتے ہوئے اسے کوتوالی سے باہر لائے اور پھر اسی طرح ڈپٹی کمشنر کی عدالت تک لے گئے، جیسے چوروں کو لے جایا جاتا ہے ، سپاہی تھپڑ مار رہا تھا، کوئی ڈنڈے ، کوئی بندوق کے بٹ، ساتھ میں موٹی موٹی گالیاں بھی دے رہے تھے، تین چار وزنی تھپڑ اس کے منہ پر مارے گئے، جس کی وجہ سے مسوڑوں سے خون رسنے لگا، اسی طرح اسے عدالت میں پیش کردیا گیا، اس کی ضمانت کے لئے صر ف ایک شخص آیا تھا، ضمانت کی درخواست پر نظر ڈالتے ہوئے ڈی سی نے مولوی کی طرف دیکھا۔
’’
ش‘‘ گروہ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ڈی سی نے پوچھا۔
میں جس خیال پر قائم ہوں، اس خیال سے تمہارا تشدد مجھے نہیں ہٹا سکتا، آج میں اکیلا ہوں کل لاکھوں مسلمان میرے ہم خیال ہوں گے ، مولوی نے سینہ تانتے ہوئے کہا۔
اپنے قد کی طرف دیکھو۔ تمہارا قد عدالت کے کٹہرے سے بھی چھوٹا ہے ، دعویٰ اتنا بڑا کرتے ہو ، کیوں اپنی جان کے دشمن ہوگئے ہو۔
تما اپنا فیصلہ سناؤ، مولوی نے سرد آواز میں کہا۔
اگر تم باز نہیں آتے تو میں تمہیں تین ماہ کے لئے جیل بھیجتا ہوں۔ جیل میں بھی تمہیں ہر اس سہولت سے محروم رکھا جائے گا جو کہ ایک عام قیدی کو بھی میسر ہوتی ہے ۔
میں صبر سے جیل کاٹ لوں گا، اس نے پُرعزم ہوکر کہا۔
تین ماہ جیل میں گزاروگے تو خود بخود کہو گے کہ مجھے چھوڑ دو، میں سیدھی سادھی پانچ وقت کی نماز پڑھاؤں گا اور پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوجاؤں گا، ڈی سی نے کہا۔
تین ماہ بعد فیصلہ ہوجائے گا کہ میں سوتا ہوں یا تم یہ شہر چھوڑتے ہو۔
دھمکی دے رہے ہو؟ ڈپٹی کمشنر نے بگڑتے ہوئے کہا۔
میں تین ماہ بعد پھر آکر وہی آواز بلند کروں گا جس کی خاطر اب جیل جا رہا ہوں۔
تین ماہ بعد بات کریں گے ، لے جاؤ اسے۔ کال کوٹھڑی میں بند کردو۔
اسے ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی میں بند کردیا گیا، کمرے میں صرف اتنا بڑا سوراخ تھا جتنا سینما گھر کی ٹکٹ والی کھڑکی میں ٹکٹ لینے کے لئے ہوتا ہے ، اس سوراخ میں سے سر بھی باہر نہیں نکالا جاسکتا تھا، صرف جھانکا جاسکتا تھا، ایک گھڑے میں پینے کے لئے کھارا پانی رکھا ہوا تھا، اوپر مٹی کا پیالہ تھا۔ دن میں صرف ایک روٹی کھانے کے لئے دی جاتی، سخت سردیوں کے موسم میں نہانے کے لئے یخ ٹھنڈا پانی، پانی بھی اتنی کم مقدار میں کہ صرف اس سے منہ ہی دھل سکے، تین ماہ تک کسی نے نہ پوچھا وہ صبر سے پڑا رہا، تین ماہ بعد اس کی رہائی کا حکم آگیا ۔ اسے کوٹھڑی سے نکال کر جیل کے کمرے میں لایا گیا، جیلر نے اس کی طرف نگاہ اٹھائی، اپنا قلم اٹھایا اور یہ الفاظ تحریر کئے۔
’’
یہ جملہ تحریر کیا کہ تم میری جیل کے وہ واحد قیدی ہو جس نے تین ماہ کے عرصہ میں کچھ نہ مانگا اور صبر سے جیل کاٹی، یہ جمہ لکھ کر فائل بند کردی‘‘۔
تم جاسکتے ہو، امید ہے کہ اب ایسی کوئی تقریر نہیں کرو گے جس کی بنا پر تمہیں پھر جیل آنا پڑے، تمہارا کیا خیال ہے ؟ جیلر نے پوچھا۔
اب چکر لگتا ہی رہا کرے گا، اس نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔
جیل کے دروازے پر صرف ایک شخص اس کے محلے کا اسے لینے آیا تھا، اس کے گاؤں سے جس کا وہ رہنے والا تھا کوئی نہ آیا، وہ گاؤں سے اٹھ کر اپنے مشن کی خاطر شہر کی سب سے بڑی مسجد فاروق اعظمؓ محلہ صحابہ نگر میں آیا تھا ، جس دن رہائی ہوئی جمعرات کا دن تھا، اگلے دن جمعہ تھا وہ اپنے کرائے کے مکان سے نکلا اور مسجد میں آیا، مسجد زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی، اس نے تقریر شروع کی، جمعہ کے بعد باہر نکلا تو پولیس پھر تیار تھی، فوراً ہتھکڑی ڈال کر جیل بھجوادیا گیا، سیکنڈ اسی طرح منٹوں میں ، منٹ گھنٹوں میں ، گھنٹے دنوں ، دن مہینوں میں ، مہینے سالوں میں بدلتے رہے، وہ ہر جمعہ ، ہر ماہ جیل جاتا رہا، کسی گاؤں میں تقریر کرتا تب گرفتار ی ، کسی قصبہ میں تقریر کرتا تب گرفتاری، کسی شہر میں تقریر کرتا تب گرفتاری، آہستہ آہستہ اس کا نام اور اس کی جماعت (س۔ص) سپاہ صحابہؓ کا نام محلے سے نکل کر شہر، شہر سے نکل صوبے، صوبے سے نکل چاروں صوبوں اور پھر پورے ملک میں پھیل گیا۔ ہر طرف اس کا ذکر ہونے لگا، اس کے مشن کا ذکر ہونے لگا، ہر دوست کی زبان پر اس کا ذکر تھا، ہر دشمن کی زبان پر اس کا ذکر تھا، رفتہ رفتہ اس کے کارکنوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی، اس کے گرد بہت سے مضبوط کردار کے لوگ آگئے، اسی طرح پندرہ سال کا عرصہ گزر گیا، اب وہ مولانا جھنگوی کے نام سے ملک سے باہر بھی جانا اور پہچانا جاتا تھا۔اب اس طرح پولیس اسے نہیں پکڑتی تھی جس طرح پہلے ہر ہفتہ دھر لیا جاتا تھا، وہ سرِ عام تقریریں کرتا تھا، دیہاتوں میں، شہروں میں ، ملک کے چاروں صوبوں میں، ملک کے ہر شہر میں اس کی جماعت کا یونٹ قائم ہوچکا تھا، ہر گاؤں میں اس کی جماعت کا یونٹ تھا، ہر صوبے میں اس کی جماعت کا یونٹ تھا، غرض کہ ملک کے گوشے گوشے میں جماعت (س۔ص) سپاہ صحابہؓ چھا چکی تھی۔ اب ’’ ش‘‘ گروہ کے ہوش اڑے ہوئے تھے، ہر جمعہ کو اس کی ڈائری ضرور لکھی جاتی تھی، لیکن گرفتار کرنے کی جرأت کسی میں نہیں تھی، اس کے اپنے شہر میں اس کے ایک اشارے پر پچاس ہزار (س۔ص) کے نوجوان کفن باندھ کر سڑکوں پر نکل سکتے تھے، اس پوزیشن میں پولیس کیا خاک ہاتھ ڈالتی ، وہ اپنے مشن کو لیکر اسی طرح آگے بڑھ رہا تھا ، ’’ش‘‘ کی شروع دن سے یہی کوشش تھی کہ کسی طرح اس مولوی کو اڑا دیا جائے، آئے دن ’’ ش‘‘ گروہ کی ہر ممکن کوشش تھی کہ مولانا جھنگوی کو 302قتل کیس میں الجھا کر پھانسی کے تختہ پر پہنچا دیا جائے، اس کے لئے ان کے اجلاس ہوتے رہتے تھے، ایک رات ’’ ش‘‘ گروہ کے خاص خاص افراد کا خفیہ اجلاس ہوا، کسی کو کانوں کان علم نہ ہوا، رات گئے اجلاس میں شامل ہونے والے افراد آئے، بڑے بڑے سرمایہ دار، بڑے بڑے ہیرئن، چرس، افیون اور شراب کے ٹھیکے دار ، بڑے بڑے جاگیردار ، شہر کے تمام برائی کے اڈوں کے لیڈر، شہر کی سیاسی شخصیات اور ’’ ش‘‘ گروہ کے خاص کارندے اور چند حکومتی افراد شریک ہوئے۔ اجلاس کے صدر نے اٹھ کر اجلاس کی غرض وغایت بتائی اور پھر اٹھ کر بولا:
آپ لوگ تاریخ پر ایک نظر ڈالئے ، آج سے سو سال پہلے انڈوآنہ میں جب انگریز کی حکومت تھی تو انگریز نے انڈوآنہ کے مسلمانوں کا بیڑا غرق کرنے کے لئے ایک شخص کو تیار کیا، اس نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا، یعنی مرزا غلام احمد قادیانی ۔ انگریز سرکار نے اس کی سرپرستی کی ، ہر وقت پولیس اس کی حفاظت کے لئے تیار رہتی، جب انڈوآنہ کے مسلمانوں نے جھوٹی نبوت کا شور سنا تو وہ اس کے خلاف اٹھے، ان پر انگریز نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیئے، جو بھی آواز جھوٹے نبی کے خلاف اٹھتی اس کو تشدد کے ذریعے دبا دیا جاتا، لیکن مسلمانوں نے برداشت نہ کیا۔ ایک شیر مسلمانوں میں سے اٹھا اس کا نام حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ تھا۔
اس کے جلسہ میں ہزاروں کا نہیں لاکھوں کا مجمع ہوتا تھا، پانچ یا دس لاکھ افراد اس کے جلسے میں ہوتے تھے، اس کی یہ خوبی تھی کہ منٹ میں مجمع کو ہنسادیا ۔ منٹ میں رلا دیا، عشاء کے بعد وہ تقریر شروع کیا کرتا تھا اور صبح فجر کی نماز کے وقت ختم کیا کرتا تھا، ساری رات میں ایک شخص بھی نہیں اٹھتا تھا، جب وہ قرآن پڑھتا تھا انگریز اور ہندو دل تھام کر رہ جاتے تھے، جب وہ انڈوآنہ کی سڑکوں پر نکلتا تھا ، اس کی جماعت مجلس احرار کے 90ہزار رضاکار سرخ کپڑوں میں ملبوس اس کے پیچھے ہوتے تھے، یہ منظر دیکھ کر انگریز سرکار بھی کانپ اٹھتی تھی، اس سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ امیر شریعت نے قادیانیوں کے خلاف آواز اٹھائی، ختم نبوت کی تحریک کو جنم دیا، اس پر بے شمار تشدد کیا گیا، اس کی جماعت پر تشدد کیا گیا، سید عطاء اللہ شاہ نے تقریباً 11سال کے قریب مختلف جیلوں میں قید کاٹی، تین بار پھانسی کا آرڈر ہوا، مگر پھانسی کا آرڈر ختم کردیا کہ ہم وہ چیز تمہیں نہیں دیں گے جس پر تمہیں خوشی ہو۔ ہم تو تمہیں تکلیف میں پاکر خوش ہوتے ہیں، پھر پاک لینڈ بن جانے کے بعد ، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی وفات کے بعد تحریک ختم نبوت اپنے عروج پر پہنچ گئی، دس ہزار مسلمان شہید ہوئے اور آخر کار سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی محنت رنگ لائی، قربانیاں رنگ لائیں ، قادیانیوں کو غیر مسلم اور اقلیت قرار دیدیا گیا، ان کی ہر عبادت پر پاپندی عائد کردی گئی۔
بالکل اسی طر ح مولانا حق نواز جھنگوی نے ہمارے خلاف تحریک اٹھائی ہے، اگر ہم نے اب اس پر قابو نہ پایا تو ایک نہ ایک دن ہمارا حشر بھی قادیانیوں جیسا ہوگا، آج ہر چوک ، ہر گلی ، ہر محلے، ہر شہر، ہر صوبے، یہاں تک کہ پورے ملک سے ایک ہی آواز بلند ہورہی ہے ، اگر اس آواز کاگلا نہ گھونٹا گیا تو ہم ہر سال سڑکوں پر عبادت نہیں کرسکیں گے، اس سلسلے میں آج کا یہ اجلاس بلایا گیا ہے کہ سب ملکر کوئی پروگرام ترتیب دیں اور اس بلا سے پیچھا چھڑا لیں۔ اجلاس کا صدر وضاحت کرنے کے بعد خاموش ہوگیا۔
پندرہ سال سے ہم اس کے خلاف کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس مولوی کی یلغار بڑھتی ہی جارہی ہے ، اس کا اب بس ایک ہی حل ہے ، جس طرح ہمارے آباؤاجداد نے حسینؓ کے خلاف سازش کرکے ، یعنی انہیں خطوط لکھ کر کوفے بلوایا اور پھر ایک طرف بیٹھ کر ، کربلا کے آگ کی مانند جلتے ہوئے میدان میں شیر خدا حضرت علیؓ کے لال ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کو شہید کرادیا تھا، اسی طرح سازش کے تحت اس مولوی کو اڑا دیا جائے ، اگر ہمارے بزرگ چودہ سو سال پہلے حضرت حسینؓ کو دھوکے سے شہید کرا سکتے تھے ، اسلام کے خلاف خطرناک سازشیں تیار کرسکتے تھے تو کیا ہم ان کی روحانی اولاد ہوکر آج کے ایک مولوی کا کانٹا نہیں نکال سکتے؟ ایک عورت نے اٹھ کر کہا:
اس مولوی کو قتل کیس میں الجھا کر تختہ دار تک پہنچا دو۔ ایک بوڑھے نے مشورہ دیا:
اگریہ زندہ رہا تو ہم کسی کام کے نہیں رہیں گے ، ہماری چرس، افیون، شراب، کوکین، ہیرئن سب دھری رہ جائیگی، ہمارے اڈے بند ہوجائیں گے ، بدمعاشی بند ہوجائے گی ، کیونکہ ضلعی انتظامیہ اب اس (س۔ص) جماعت کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ ایک ہیروئن کے سمگلر نے کہا:
ایک خبر اور بھی سننے میں آئی ہے کہ اس مرتبہ یہ مولوی الیکشن بھی لڑرہا ہے، اس کا مقصد سیاسی وقار حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ ہمارا حشر قادیانیوں جیساکرنا ہے ۔ ایک سرمایہ دار نے اٹھتے ہوئے کہا:
اس سلسلے میں آپ فکر نہ کریں، بیشک شہر کے ہزاروں افراد مولوی کے ہم مذہب اور ہم خیال بھی ہیں، اس کے ایک اشارے پر جان قربان کرسکتے ہیں، لیکن مولوی یہ نہیں جانتا کہ اس شہر کی عوام پر ہم چالیس سال سے حکومت کر رہے ہیں، لوگ ہمارے غلام چلے آرہے ہیں، پاک لینڈ بننے سے پہلے ہمارے بزرگوں نے انگریز سرکار سے وفاداری کی تھی، مسلمانوں کی مخالفت کی تھی، اس سلسلہ میں ہمیں پاک لینڈ کی تقسیم سے پہلے ضلع جھنگ پور کا بہت سا علاقہ عطا کردیا گیا تھا جو آج بھی ہمارے قبضے میں ہے ، اور جس کی رعایا آج بھی ہماری غلام ہے ، دیہاتوں میں ہمارا راج ہے ، کوئی کمی ( کسان) ہمارے خلاف نہ آواز اٹھا سکتا ہے ، نہ ووٹ کاسٹ کرسکتا ہے ، ہم نے ہمیشہ اس شہر کے لوگوں کو اور دیہاتیوں کو سبز باغ اور سوئی گیس کی باتیں کر کے بے وقوف بنایا ہے اور مزید بنائیں گے ، اگر ہم شہر کو ترقی کی راہ پر گامزین ہونے دیں ، تو ہمارے حقے کون بھرے گا، ہمارے پاؤں کون دبائے گا، لوگ تو ملوں، کارخانوں میں چلے جائیں گے ، ہوائی اڈا بن جائے گا، سڑکیں پختہ بن جائیں گی، بجلی ہر طرف شہر ودیہات میں سپلائی ہوجائے گی، پل تعمیر ہوجائیں گے ، چھوٹا سا یہ شہر اگر جنت کا نمونہ بن گیا تو ہماری جاگیرداری اور سرمایہ داری کس بِل میں سما سکے گی، اسی لئے ہم نے چالیس سال سے شہر کو ترقی تو کیا ہونے دین الٹا بہت پیچھے لے جاگرایا ہے، جو شہر کل اس ضلع جھنگ پور کی تحصیلیں تھیں، آج وہ شہر دلہن بنے ہوئے ہیں، خوشحالی ہے، روزگار ہے ، اس وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ آپ لوگ بے فکر رہیں ، جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک اس شہر کی سیاست پر کوئی نہیں چھا سکتا ، یہ ملاں کسی باغ کی مولی ہے ، کرائے کے مکان میں تو رہتا ہے ، ہمارا مقابلہ کیا خاک کرے گا، اس جیسوں کو تو ہم خرید کر مار دیں، ایک خوبصورت عورت نے اپنی بات مکمل کی۔
بزرگ صاحب، آپ ہی کچھ فرمائیں؟ ایک سرکاری اہل کار نے ایک غنڈہ ٹائپ شخص سے کہا۔
بھئی میں تویہ چاہتا ہوں کہ میری ہیروئن فروخت ہوتی رہے بس۔ میں ہر طرح سے آپ کے ساتھ ہوں، اگر یہ مولوی اسمبلی میں چلا گیا تو پھر جھنگ پور کی انتظامیہ کو اس کا کہنا ماننا پڑے گا اور ہمارے اڈے بند ہوجائیں گے۔ بزرگ صاحب بولے۔
میرے ذہن میں ایک پلان ہے ، اگر شہر جو ناب کی انتظامیہ ساتھ دے؟ ایک پولیس اہلکار نے کہا۔
جوناب انتظامیہ، واہ مزا آگیا، وہاں کی تو ساری انتظامیہ ’’ش‘‘ گروپ سے یعنی ہم سے تعلق رکھتی ہے، ’’ ش‘‘ گروپ کے ایک مذہبی رہنما نے کہا۔
بس تو پھر کام بن گیا، مولوی اگلے ماہ کی سات تاریخ کو جوناب میں ایک بڑے جلسے عام سے خطا ب کرے گا، اس کے فوراً بعد منصوبے کے مطابق کام شروع کردیا جائے۔
ہمارے ساتھ بے چارے پولیس والے بھی اس مولوی سے تنگ ہیں، آئے دن ڈیوٹی، ناکہ بندی، گشت، رپورٹ، ایک ’’ش‘‘ گروپ کے خاص فرد نے ہمدردی جتائی۔
پورے صوبے کی پولیس کی یہی خواہش ہے کہ یہ مولوی نہ رہے، ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر یہ چاہتا ہے کہ یہ اس کے ضلع سے دور رہے، کیونکہ جہاں بھی یہ جاتا ہے اس کی واپسی سے اگلے روز تین چار آدمی قتل ہوجاتے ہیں۔ ایک آفیسر بولا
میری ایک رائے سن لیں، پھر سب ملکر آپس کے مشورے سے کوئی منصوبہ ترتیب دیں گے، رائے یہ ہے کہ اس مولوی کے خلاف پروپیگنڈہ مہم کو تیز کردو، ہر طرف شور مچا دو کہ یہ فسادی ہے، تخریب کار ہے ، اس کی جماعت تخریب کار ہے ، یہ ملک دشمن تنظیم ہے، یہ قاتل گروہ ہے ، یہ ملکی امن کے دشمن ہیں، بس یہ کام بڑے پیمانے پر ہونا چاہئے، جب قوم کا ایک ذہین اس کے خلاف بن جائے گا تو پھر یہ لاکھوں تقریریں کرے، کامیاب نہیں ہوگا، جب بھی ہمارے مقابلے پر آئے گا، شکست سے دوچار ہوگا، اسی عورت نے کہا جس نے پہلے وضاحت کی تھی اور اپنے بارے میں بتایا تھا۔
کیوں نہ کرائے کے قاتل کے ذریعے پتّا صاف کردیا جائے، ایک جاگیردار نے رائے پیش کی۔
یہ کام اگر کرنا ہوتا تو کب کا کیا جاسکتا تھا، لیکن اگر اس کو اس طرح مروایا گیا تو پھر پورے ملک میں ’’ش‘‘ گروپ کا ایک فرد بھی زندہ نہیں بچے گا، اس کی جماعت ہمیں کھا جائے گی، ہمارا خون ملک کی سڑکوں پر نظر آئے گا، ہر طرف قتل وغارت شروع ہوجائے گی، قوم کے سامنے ہمارا کردار خراب ہوجائے گا، پوری قوم وہی نعرہ لگانے لگ جائے گی جو آج مولوی اور اس کے لاکھوں کارکن لگا رہے ہیں، کام وہ کرنا چاہئے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، اب یکھ لو حسینؓ کے قاتل ہمارے ہی بڑے تھے، اور پھر محب بھی وہ خود ہی بن گئے، شہید کرنے والے بھی خود تھے ، وارث بھی خود بن بیٹھے، آج تک دنیا الو ہے۔ اس سلسلے میں کوئی نہیں جانتا کہ محب کون ہے اور دشمن کون ہے ۔
ایک طریقہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ گرفتار کر کے تھانہ میں تشدد کر کے ختم کردیا جائے ، لاش غائب کردی جائے، ایک سرمایہ دار نواب نے کہا۔
نہیں اس طرح متعلقہ تھانے کا عملہ مارا جائے گا، مولوی کی جماعت تھانے کو آگ لگا دے گی۔
ایک ترکیب میرے ذہن میں آئی ہے ، کیوں نہ شہر کے ’’ب‘‘ گروپ اور ’’د‘‘ گروپ کو آپس میں لڑا دیا جائے دونوں مسلمان ہیں آپس میں لڑ لڑ کر اپنی طاقت کھو بیٹھیں گے، مولوی ’’ب‘‘ گروپ کے ہاتھوں مارا جائے گا، ’’ب ‘‘ گروپ پھانسی چڑھ جائے گا اور ’’د‘‘ گروپ بغیر لیڈر کے ویسے ہی مرجائے گا۔ اسی عورت نے رائے دی۔
یہ طریقہ کار بہت کار آمد ہوسکتا ہے ، پر اس کے لئے ہمیں ’’ ب‘‘ گروپ کو اپنے ساتھ ملانا ہوگا؟ ایک ’’ ش‘‘ گروپ کے خاص لیڈ ر نے کہا۔
’’
ب‘‘ گروپ کو ساتھ ملانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ، اپنے آدمی ’’ب‘‘ گروپ کے میک اپ میں داخل کردیئے جائیں ، وہ ایک عرصہ تک ’’ب‘‘ گروپ میں اپنا مقام بنائیں ، جب ’’ ب‘‘ گروپ ان کو اپنا ہی جاننے اور سمجھنے لگ جائے تو ہمارے آدمی اس وقت کا دکھانا شروع کردیں، اگر بیل منڈیر پر چڑھتی نظر آئے تو اصل پروگرام پر عمل کر ڈالا جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کوفیوں نے حسینؓ کو بلا کر ، کربلا کے میدان میں ایک طرف تماشائی بن کر شہید کروا ڈالا تھا، بالکل اسی طرح ’’ب‘‘ اور ’’د‘‘ گروپ کو لڑوا کر ہم ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھیں گے، ان دونوں گروہوں کو اس طرح آپس میں لڑوا دو کہ ان کو اَدھراُدھر دیکھنے کی ضرورت ہی حاصل نہ ہو اور ہمارا دشمن مولوی اسی خانہ جنگی کاشکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوجائے۔ عورت نے کہا
اب سب نے اپنی رائے پیش کردی ہے، اگر کسی کے ذہن میں کوئی انوکھی رائے ہو تو وہ بخوشی پیش کردے۔اس کے بعد سب ملک کر سرجوڑ کر بیٹھ جائیں گے اور کسی خاص پروگرام کو ترتیب دینے کے بعد ہی اٹھیں گے، پروگرام بھی ایسا ہو گا کہ مولوی کو سانس بھی نہیں لینے دیں گے، اجلاس کے صدر نے کہا۔
’’
ش‘‘ گروپ کے تمام بڑے بڑے دماغ یہاں موجود ہیں، کوئی نہ کوئی اچھا نتیجہ نکل ہی ائے گا، کیوں بھئی کیا خیال ہے؟ بزرگ صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔
تم بھی کچھ کم نہیں ہو، ایک خاص کارندے نے کہا۔
ایک بات یاد رہے یہاں کی کوئی بات باہر نہ نکلے، کہیں دشمن پہلے ہی چوکنا نہ ہوجائے، اجلاس کے صدر نے خبردار کیا۔
رات گزر رہ تھی، ’’ش‘‘ گروپ کے بڑے دماغ رازدارانہ طورپر پروگرام ترتیب دے رہے تھے۔
کیسٹ اور فائل
وہ سیر کرتے ہوئے بہت دور نکل آئے تھے، چھٹی کا دن تھا، واپسی کی انہیں کوئی جلدی نہیں تھی، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، بادل چھائے ہوئے تھے۔
توقیر ، یار، ابا جان ، آج کل اخبار کے مطالعہ میں بہت زیادہ غرق رہتے ہیں، بابر نے کہا۔
یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں وہ تو ہمیشہ ہی اخبار میں ڈوبے رہتے ہیں۔
تم میرا مطلب نہیں سمجھے، بابر نے ایک درخت کے نیچے رکتے ہوئے کہا۔
تمہیں معلوم ہے مطلب سمجھنے کے معاملہ میں ، میں بہت کند ذہن ہوں۔
سنو تو سہی، وہ اخبار میں آج کل صوبائی دارالحکومت سے تقریباً 300کلومیٹر دور ضلع جھنگ پور کی خبروں میں بہت دل چسپی لے رہے ہیں، وہاں کے حالات بہت خراب ہیں، ہر گلی محلے سے گرفتاریاں ہورہی ہیں، ہنگامے ہیں، ہڑتالیں ہیں، بھوک ہڑتال ہے، ناکہ بندی ہے ، ضلع بندی ہے ، گھیراؤ ہے، دھرنا ہے، جلسے جلوس ہیں، یہ سب کچھ مولانا جھنگوی کی گرفتاری کی بنا پر ہے ، ان پر اور ا ن کے تین چار خاص ساتھیوں پر 302کا مقدمہ بن گیا ہے ، میرا دل نہیں مانتا کہ مولانا صاحب قاتل ہیں۔
بات تو تمہاری ٹھیک ہے ، میرا دل بھی یہی کہتا ہے کہ وہ بے گناہ جیل میں پڑے ہیں اور پولیس ان کی جماعت کے کارکنوں پر ناجائز تشدد کر رہی ہے، برہنہ کر کے مارا پیٹا جارہا ہے ، بھوکا پیاسا رکھا جارہا ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جھنگ پور کی انتظامیہ تشدد کے بل بوتے پر اس (انجمن،س۔ص) کو ختم کرنا چاہتی ہے ، لیکن کوئی بھی تحریک جو نیک مقصد کے لئے ہو تشدد سے نہیں دبائی جاسکتی، ہم (انجمن،س۔ص) کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں، مولانا کا مشن پاک اور مقدس ہے وہ ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں کہ بعد میں آنے والی نسل انہیں صدیوں یاد رکھے گی اور جب بھی کوئی کفریہ طاقت سر اٹھائے گی، ان کے نقش قدم پر عمل کرے گی، تو قیر نے بات مکمل کی۔
اخبارات کے ذریعے سے پتا چلتا ہے کہ ’’ش‘‘ گروپ کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح مولانا حق نواز جھنگوی شیر اسلام پھانسی چڑھ جائیں ، جب کہ ( انجمن ،س۔ص) کا کہنا ہے کہ مولانا بے گنا ہ ہیں اور یہ قتل کسی گہری سازش کا نتیجہ ہے، ان کا مطالبہ ہے کہ کیس کی تفتیش ایماندار اور غیر جانب دار پولیس آفیسر سی آئی اے برانچ سے کرائی جائے تاکہ انصاف ہوسکے، ’’ش‘‘ گروپ نے (ب گروپ) کو آگے لگایا ہوا ہے ’’ب‘‘ گروپ ’’ش‘‘ گروپ کے اشاروں پر ناچ رہا ہے ، اور اندھا دھند مطالبہ کررہا ہے کہ جھنگوی کو پھانسی دو۔
کیوں نہ ابا جان سے اس سلسلے میں بات کی جائے کہ وہ اس کیس پر کام کریں، توقیر نے کہا۔
میرا بھی دل یہی چاہتا ہے کہ ابا جان اس کیس پر کام کریں اور درست پولیس رپورٹ مرتب کریں تاکہ بے گناہ مولانا جیل سے باہر آسکیں اور جھوٹا مقدمہ خارج ہوجائے۔
شام کی چائے وقت ابا جان سے بات کریں گے ۔انہیں اگر حکومتی سطح پر اس کیس پر کام کرنے کے لئے نہ بھی کہا جائے اور وہ اپنی مرضی سے کسی کیس پر کام کرنا چاہیں یا دخل اندازی کرنا چاہیں تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا، کیونکہ ان کے پا س وسیع اختیارات ہیں۔
ارے! اچانک دونوں کے کان کھڑے ہوگئے۔
گولی چلنے کی آواز ہے۔ بابر نے چونکتے ہوئے کہا، فائر کلاشن کوف رائفل سے کیا گیا ہے ، توقیر بولا۔ آؤ دیکھتے ہیں کیا معاملہ ہے ، بابر نے سامنے کی طرف دوڑ لگاتے ہوئے کہا۔
وہ دوڑتے چلے گئے، اچانک وہ ٹھٹھک کر رگ گئے، ایک نیلے رنگ کی کار سڑک پر الٹی پڑی تھی، سڑک پر خون پھیلا ہوا تھا، خون بھرے جوتوں کے نشانات بنے ہوئے تھے، دونوں نے جائے حادثہ کا بغور معائنہ کیا، سارا معاملہ ان کی سمجھ میں آگیا، بڑی مشکل سے انہوں نے کار سیدھی کی، بابر نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ، کار کا رخ اسی سمت موڑا جس طرف سے وہ آئی تھی، اس سمت خون بھرے بچارو کے نشانات واپس مڑتے نظر آرہے تھے، جس کا صاف مطلب تھا کہ اس کار میں موجود سواروں کو اغوا کر کے لے جایا گیا ہے، کار والوں میں سے کسی نے مزاحمت کی ہوگی جس کے نتیجہ میں گولی چلی۔ سڑک قریباً بیس کلو میٹر تک سیدھی اور صاف تھی، دائیں بائیں کوئی ذیلی سڑک نہیں نکلتی تھی ، اسی لئے وہ مطمئن تھے کہ بچارو تک پہنچ جائیں گے۔ سڑک بہت چوڑی تھی ، ٹریفک بھی اس سڑک پر برائے نام تھی، یہ لمبا راستہ تھا، کسی شہر سے دارالحکومت کے لئے ، لیکن پر سکون اور خوبصورت سڑک۔
وہ رہی بچارو، توقیر چلایا۔
شور کیوں مچارہے ہو۔
جو تم کہتے ہو وہ مچا لیتا ہوں، بگڑ کیوں رہے ہو، یار کسی مشن پر نکلنے کے لئے رفعت کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ وہ بہت ذہین ہے، مفید مشورہ دیتی ہے،عقل مند ہے تم نہایت ہی فضول آدمی ہو۔
میں آدمی کہاں میں تو لڑکا ہوں، تمہیں آدمی اور لڑکے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، کیا نظرکمزور ہے، گدھے، گھوڑے سب برابر کردیئے۔
اس کا مطلب ہے تم گدھے ہو کیونکہ تم لڑکے ہو، اگر تم آدمی ہوتے تو میں تمہیں گھوڑا کہہ دیتا کیونکہ گھوڑا گدھے سے بڑا ہوتا ہے ۔
اب گھر سے نکلتے وقت یہ کسے معلوم تھا کہ کوئی مہم پلے پڑ جائے گی، ورنہ رفعت کو ساتھ لے کر چلتے۔ اب تو مجبوری ہے ، تمہیں میرا تعاون ہی حاصل کرنا ہوگا۔ توقیر نے کندھے اچکائے۔
اس وقت تو کوئی پستول بھی جیب میں نہیں ہے ، اور یہ اغوا کرنے والے نظر آتے ہیں خطرناک۔
کیوں پھر ؟ اب اگر اس موقع پر رفعت تمہارے ساتھ ہوتی بھی تو سوائے مفید مشورہ دینے کے اورکسی کام نہ آتی، جبکہ میرے پاس اللہ کا عطا کردہ ایسا فن ہے کہ میں بغیر اسلحہ کے بھی کچھ وقت کے لئے دشمن کو پریشانی میں مبتلا کرسکتا ہوں، توقیر نے اکڑتے ہوئے کہا۔
زیادہ مت اکڑو، کہیں غبارے میں سے ہوا نہ نکل جائے، جناب مجرم کلاشن کوف استعمال کرنے میں فراخ دل ہیں، بابر نے اس کا مذاق اڑایا۔
یہ تم آج بزدلوں جیسی باتیں کیوں کررہے ہو، توقیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بزدلوں جیسی نہیں کررہا ہوں بلکہ مصنف اشتیاق احمد کے کرداروں شوکی برادرز جیسی باتیں کرنے کے موڈ میں ہوں۔ بابر نے کہا۔
یار! کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ انکل انسپکٹر جمشید، انکل انسپکٹر کامران مرزا اور شوکی برادرز کے ہمراہ محمود، فاروق، فرزانہ، آصف، آفتاب، فرحت وغیرہ کے ہمراہ ہم کسی مہم پر نہیں نکل سکتے؟
رہنے دو یہ بہت ٹیڑھا مسئلہ ہے ، اگر ایسا ہوجائے تو بس ہم سب ہی نظر آئیں گے مجرم دم دبا کر بھاگ جائیں گے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں گے ۔
اوہو! بچارو تو کچی سڑک پر اتر رہی ہے ۔ بابر کی توجہ اس طرف مبذول کرواتے ہوئے توقیر نے کہا۔
کہیں تو رکے گی ۔ بابر نے بھی مڑتے ہوئے کہا۔
ایک بات کی طرف تم نے توجہ نہیں دی، توقیر نے فکرمند ہوتے ہوئے کہا۔
کسی بات کی طرف؟
جس کسی کو یہ اغوا کر کے لے جارہے ہیں، ظاہر ہے کہ پہلے انہوں نے اسے زخمی کیا ہے ، کیا وہ زخمی اب تک زندہ ہوگا؟ ہمیں تیزی سے کام لیکر پجارو کو روکنا چاہئے تھا۔
موت کا وقت مقرر ہے ، ہم کیا کرسکتے ہیں۔
یہ کچی سڑک تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ بابر بڑبڑایا۔
رفتار بڑھا کر یہیں روک لیتے ہیں، ان لوگوں کو۔ توقیر نے سوالیہ انداز میں بابر کی طرف دیکھا۔
نہیں، جب یہاں تک آگئے ہیں تو آگے بھی جہاں تک جانا پڑا جائیں گے ۔ چاہے کار میں تیل ختم ہوجائے۔ توقیر جھٹ بولا۔
جیپ ایک حویلی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بابر نے رفتار کم کرتے ہوئے کہا۔
ہمیں یہیں اترجانا چاہئے۔
کار اب گرد سے اٹ چکی ہے وہ لوگ کیا پہچانیں گے، ان کے تو وہم وگمان میں نہیں ہوگا کہ جس کار سے وہ اغوا کرکے لائے ہیں وہی کار کوئی ان کے پیچھے لئے آرہا ہے۔
پھر بھی ہوسکتا ہے نمبروں سے پہچان ہوجائے۔
لو بھئی! تم بھی کیا یاد کرو گے، بابر نے کار ایک طرف کھلی جگہ کی سمت موڑتے ہوئے کہا۔
پجارو سیدھی حویلی کے بڑے دروازے سے گزر کر اندر داخل ہوگئی، بریک لگتے ہی اس کے دروازے کھلے اور آٹھ افراد ہاتھوں میں کلاشن کوف لئے اترے، ڈرائیور کے ہاتھ میں ایک فائل اور ویڈیو کیسٹ تھی، تین بے ہوش افراد کو اتارا گیا، ان میں سے ایک مرچکا تھا اس کے دل پر گولی لگی تھی، حویلی کے نوکروں نے تینوں افراد کو جن سے دو بے ہوش اور ایک لاش تھی اتار کر حویلی کے صحن میں ڈال دیا، ان کی آمد کی اطلاع ملتے ہی جاگیردار باہر نکلا۔ رائفلوں والوں میں سے ایک نے جیب سے ایک خط نکال کر جاگیردار کی طرف بڑھا دیا ، خط کی تحریر بڑی مختصر تھی، جاگیردار نے پڑھا۔
’’
یہ میرے بندے ہیں ان کا ساتھ دو، نیچے ایک خاص عورت کے دستخط تھے‘‘
ان کو غائب کرنا ہے ، جاگیردار نے بے ہوش افراد کی طرف اشارہ کیا۔
ہاں ۔ اگر یہ لوگ آئی جی تک جانے میں کامیاب ہوجاتے تو کیس کی کایا پلٹ جاتی۔
کیا مطلب؟ جاگیردار چونک اٹھا۔
جناب آپ کو علم تو ہے ، ایک رائفل مین نے کہا۔
اچھا، اچھا، اس نے سمجھتے ہوئے کہا۔
ہم جائیں ،کام ہوجائے گا۔
تم بے فکر ہوکر جاؤ ، مائی صاحبہ کو سلام عرض کرنا، یہ بندے غائب کردیئے جائیں گے، ان کا نام ونشان بھی نہیں ملے گا۔
مہربانی جناب ۔ انہوں نے مڑتے ہوئے کہا۔
ایسی بھی کیا جلدی ، لسی پانی پی کر جانا، جاگیردار نے کہا۔
وہ آٹھ افراد جاگیردار کے پیچھے چل پڑے، جاگیردار نے اپنے نوکروں کو اشارہ کیا، نوکروں نے اشارہ سمجھ کر دونوں بے ہوش افراد اور لاش کو اٹھا لیا، ایک جیپ میں ڈالا اور باہر نکل گئے۔ بابر اور توقیر ایک کونے میں کھڑے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، بابر نے توقیر کو اشارہ کیا، توقیر کار میں بیٹھ کر نکل گیا، کار کے پیچھے جیپ آرہی تھی، جاگیردار کے نوکر کھلی جیب میں کھرے تھے ۔ ادھر بابر اندر کی طرف بڑھا، جاگیردار نے ان لوگوں کو اندر آنے کے لئے کہا۔ رائفلیں اور کیسٹ جیپ میں رکھ کر وہ جاگیردار کے پیچھے چل دیئے۔ چونکہ جیپ حویلی کے اندر کھڑی تھی اس لئے ان لوگوں نے نہ تو جیپ کو لاک کیا نہ چابی نکالی، طاقت کے نشے میں چور وہ کھانے پینے کے لئے اندر بڑھ گئے۔ بابر نہایت احتیاط سے جیپ کی طرف بڑھ رہا تھا، اس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی، آنے جانے والے دیہاتیوں نے یہی سمجھا کہ یہ لڑکا بھی ان کے ساتھ آیا ہے جو اندر گئے ہیں، وہ جیپ میں سوار ہوگیا ، سب سے پہلے کیسٹ اور فائل قبضہ میں کی، رائفلیں اگلی سیٹ پر اکٹھی کیں اور انجن سٹارٹ کردیا، اگلے ہی لمحے بچارو طوفان کی مانند حویلی سے نکلی۔ اسی وقت حویلی کے اندر سے کوئی جیپ کے لئے چلایا۔ مگر اتنی دیر میں وہ آگے جا چکا تھا۔
جیپ ایک نہر کی طرف مڑ گئی، توقیر سمجھ گیا کہ یہ لوگ ان کو غرق کرنا چاہتے ہیں، جونہی وہ لوگ اترے توقیر نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ایک ہولناک دھماکہ ہوا، مارے خوف کے دیہاتی بھاگ نکلے، اس نے جلدی جلدی دونوں بے ہوش افراد کو اور لاش کو اٹھا کر کار میں ڈالا۔ اگلے ہی لمحے وہ رفو چکر ہولیا۔ اس نے گھڑی کا بٹن دبا کر بابر سے رابطہ قائم کیا، اس کی کار پکی سڑک پر چڑھ چکی تھی، ادھر بابر بھی پکی سڑک پر چڑھ چکا تھا۔ رابطے کی ضرورت ہی نہ رہی وہ بابر کے پیچھے ہولیا، پجارو اور کار برق رفتاری سے دارالحکومت کی طرف رواں دواں تھیں۔ بابر نے گھڑی آن کی۔
توقیر اس کیسٹ اور فائل میں کیا ہوسکتا ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔
مجھے کیا علم کہ یہ کون ہیں، کہو تو پوچھ کر آجاؤں کہ بھائی تم کون لوگ ہو، کہاں سے آئے ہو ، ان میں سے ایک کو قتل کیوں کیا اور دو کو بے ہوش کیوں کیااور اب غائب کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہو۔ پوچھ آؤں، توقیر نے اصرار کیا۔
تمہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے وہ لوگ خود ہی آرہے ہیں ، بابر نے آئینے میں پیچھے دیکھا۔
ارے! یہ تو گھوڑوں پر آرہے ہیں، اب ہمیں سلطان راہی کی طرح لڑنا پڑے گا۔
گنڈاسا ہے تمہارے پاس؟
او یار! یہ میری گرج اور بڑکیں سن کر ہی بھاگ کھڑے ہوں گے۔
انہیں پیچھے لگائے رکھتے ہیں آگے جار ان سے نبٹ لیں گے، یہ قاتل ہیں ، مقتول ہمارے ساتھ ہے، ابا جان کیا کہیں گے کہ قائل کہاں چھوڑ آئے۔
پہلے تو یہ مجھے ہی آ پکڑیں گے ، تمہارے پاس تو جیپ میں کلاشن کوفوں کا کھیت اگا ہوا ہے ۔
تو قیر ایک جیپ ہی کیا ہمارا تو سارا ملک کلاشن کوف کی لپیٹ میں ہے ، جائیں تو جائیں کہاں۔
گانا گارہے ہو، لا حول ولا قوۃ۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے تم جو بڑکوں کی بات کر رہے تھے ، میں تو مذاق کر رہا تھا، ی تو آبھی گئے، رفتار بڑھاؤ ، ان کے پاس تو گھوڑے ہیں، گھوڑوں کا پٹرول تو ختم ہی نہیں ہوگا۔
سنو! ہم انہیں زندہ گرفتار کرکے لے جائیں گے ، لہذا تم کا م دکھاؤ، میں اپنا کام کرتا ہوں۔
لو پھر کام شروع۔ تو قیر نے کار کی رفتار کم کرتے ہوئے منہ کھڑکی سے باہر نکالا۔
اس کے منہ سے ہولناک دھماکے کی آواز اتنی بلند نکلی کہ گھوڑے بدک گئے، سوار گر پڑے ، یہی وقت تھا بابر کو بجلی بن کر ٹوٹ پڑنے کا، کلاشن کوف رائفل کے بٹ ان کے سروں پر پڑنے لگے، اسی وقت زبردست فائرنگ ہوئی، دشمن بوکھلا اٹھے، یہ فائرنگ بھی توقیر کے منہ سے نکلی تھی، مجرم یہ سمجھتے رہ گئے کہ گولیاں دائیں بائیں سے گزر گئی ہیں۔اتنی دیر میں بابر کئی ایک کو بے ہوش کرچکا تھا، توقیر اترا اور پجارو کے قریب جاکھڑا ہوا تاکہ کوئی مجرم رائفل نہ اٹھاسکے، تمام مجرم زمین پر گرے پڑے تھے اور ان کے گھوڑے دھماکے کی وجہ سے سر پر پاؤں رکھے بھاگے جارہے تھے، ایک مجرم نے پیچھے سے بابر پر وار کرنا چاہا مگر توقیر نے عین وقت پر گولی کی آواز منہ سے نکالی ، مجرم گھبرا کر نیچے گر پڑا، دھپ کی آواز نے بابر کو کو پیچھے متوجہ کردیا، اس نے رائفل کا بٹ اس کے سر پر دے مارا۔ آٹھ مجرموں میں سے پانچ بے ہوش ہوگئے تھے، بقایا تین درختوں کے پیچھے چھپے ہوئے افراد الٹ کر گرے، یہی موقع تھا بابر کے لئے طوفان کی مانند حرکت میں آنے کا، جلد ہی وہ تینوں بھی ڈھیر ہوگئے، دونوں نے مل کر انہیں جیپ میں ڈالا۔ ڈالنے سے پہلے وہ انہیں رسیوں سے جکڑنا نہ بھولے، رسی کا گولہ ان کے پاس ضرور رہتا تھاکیونکہ کسی بھی وقت ضرورت پیش آسکتی تھی، ایک مرتبہ پھر وہ دارالحکومت کی طرف چل دیئے۔ دس منٹ تیز رفتاری سے چلنے کے بعد وہ شہر میں داخل ہوئے۔ دن چڑھ چکا تھا ، وہ سیدھے دفتر کی طرف چلے گئے، مجرموں کو خاص کمرے میں بند کرکے وہ اپنے ابا جان کے کمرے میں آئے۔
دیہات سے ہوکر آرہے ہو ، تمہارے بالوں پر گرد جمی ہوئی ہے۔ انسپکٹر ارسلان نے کہا۔
ابا جان، یہ کیسٹ اور فائل ، بابر نے دونوں چیزیں میز پر رکھ دیں۔
یہ کیا؟
سنیں! بابر نے تفصیل سے بتایا۔
لاش ہسپتال بھیج دی ہے ، انہوں نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
جی ہاں۔
کاشف دونوں بے ہوش افراد کو یہاں لے آؤ، انسپکٹر ارسلان نے سامنے بیٹھے ہوئے کاشف کو حکم دیا۔
دھیان سے لانا ، بھول نہ جانا، طارق نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
کاشف نے چائے کا کپ گھسیٹا یعنی پورا کیااور اٹھ کھڑا ہوا ، جاتے ہوئے اس نے بابر اور توقیر کے قریب سے گزرتے ہوئے بالکل آہستہ آواز میں کہا:
صبح ہی صبح کیا ضرورت تھی کہیں الجھنے کی، بڑے آرام میں چائے پی رہا تھا۔
کیا کہا ہے اس نے ؟ اس کے نکل جانے کے بعد طارق نے پوچھا۔
طارق تم یہ کیسٹ لیکر ریکارڈ روم میں چلو، وی سی آر پر کیسٹ چڑھادو، ہم آرہے ہیں۔
اور ہاں ، آئی جی صاحب سے وہ فائل بھی لے لینا جو وہ صبح کہہ رہے تھے۔
لیجئے سر یہ تو ہوش میں آگئے ہیں۔ کاشف دو افراد کو اندر لئے داخل ہوا۔
آیئے بیٹھئے، انسپکٹر ارسلان نے انہیں کرسیوں پر بیٹھنے کے لئے کہا۔
ہم یہاں کیسے آگئے، یہ تو محکمہ سراغرسائی ہے، ان دو میں سے ایک نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
پہلے تو یہ سن لیں کہ آپ لوگ یہاں تک کیسے آئے ہیں۔ انسپکٹر ارسلان نے تفصیل دہرا دی۔
ڈرائیور مرچکا ہے ، ان دونوں میں سے ایک کے منہ سے نکلا۔
ہاں۔ وہ لوگ کون ہیں، انہیں آپ لوگوں سے کیا دشمنی ہے۔ انسپکٹر ارسلان نے پوچھا۔
ارسلان صاحب آپ یہ فائل پڑھ لیں اور کیسٹ دیکھ لیں، سب کچھ آپ کی سمجھ میں آجائے گا، ہم یہ فائل اور کیسٹ آپ کے آفس ہی لے کر آرہے تھے ، تاکہ آئی جی صاحب کو پیش کی جاء اور اپنی بے گناہی کا ثبوت فراہم کیا جائے اور نئی پولیس رپورٹ عدالت کو دکھائی جاسکے کہ ہم بے گناہ ہیں۔
پہلے کیسٹ دیکھی جائے یا فائل پڑھی جائے۔
پہلے کیسٹ دیکھ لیں ، اور یہ تو بتائیں کیا ڈرائیور کے قاتل اور ہمارے دشمن گرفتار ہونے کے بعد رہا تو نہیں کردیئے جائیں گے ۔ ایک نے پوچھا۔
نہیں۔ میں انہیں ضرور سزا دلواؤں گا، وہ قاتل ہیں، آپ یہ بتائیں کیا آپ جھنگ پور سے آئے ہیں؟
جی ہاں۔ آپ نے کیسے اندازہ لگایا۔
بھئی میں پولیس آفیسر ہوں ، وہ مسکرائے
پھر تو آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ہم کون ہیں، 
خاص کارکن ( انجمن ، س۔ص) انہوں نے بتایا۔
آپ بہت ذہین ہیں۔
(
انجمن، س۔ص) بابر اور توقیر کے منہ سے نکلا۔
آیئے، کیسٹ دیکھتے ہیں، انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
ایک گزارش ہے سر۔ ان میں سے ایک بولا۔ 
کیا؟
یہ کیسٹ آئی جی صاحب کو بھی دکھا دی جائے۔
ہوں۔آیئے۔ انہوں نے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا۔
انسپکٹر ارسلان انہیں لیکر آئی جی مختار احمد کے کمرے میں داخل ہوئے۔
آؤ، ارسلان۔
سر، ان لوگوں کا تعلق ( انجمن،س۔ص)سے ہے ۔
اوہ، آیئے بیٹھئے، آئی جی مختار احمد نے بڑے میٹھے لہجے میں کہا۔
سر یہ لوگ کس انداز میں یہاں تک لائے گئے وہ ذرا سن لیجئے۔
لائے گئے ہیں ۔ وہ چونکے
انسپکٹر ارسلان نے تفصیل دوہرائی ، آئی جی صاحب ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ، ان کے ہاتھ میں بھی ایک فائل تھی، انہوں نے وہ فائل انسپکٹر ارسلان کو تھمائی اور بولے:
یہ مولانا جھنگوی کیس کی سرکاری فائل ہے ، اس میں ان کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جھنگ پور کی انتظامیہ ’’ ش ‘‘ گروپ کے اشاروں پر ناچتی ہے، وہ بولے ’’ یہی بات ہے سر‘‘ ایک بولا
اس فائل میں یہ ہے کہ مولانا جھنگوی کو شہر جوناب سے تقریر کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا، ان کی رہائی کے لئے ( انجمن ، س۔ص) نے ملکی اور شہری امن کو تباہ کردیا ایک ہزاروں کا زبردست جلوس جوناب شہر لے جایا گیا، وہاں پر جلوس میں شامل ( انجمن، س۔ص) کے غنڈوں ، تخریب کاروں اور ملک دشمن عناصر نے وہ تباہی مچائی کہ شہر جوناب کے باشندوں نے گھروں کے دروازے بند کرلئے، دکانیں بند ہوگئیں، بازار سنسان ہوگئے، ہر طرف غنڈے ہی غنڈے چھائے ہوئے تھے، اس سے پہلے کہ مزید تباہی اور امن بربا د ہوتا جوناب شہر کی انتظامیہ نے مولانا کی رہائی کے آرڈر کردیئے، ان کی رہائی ہوئی، ہزاروں افراد جلوس بنا کر ان کو کندھوں پر اٹھا کر جیل سے باہر لائے ، یہ جلوس کاروں، ویگنوں، موٹر سائیکلوں اور بے شمار پیدل حضرات پر مشتمل تھا، واپسی پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے مولانا جھنگوی نے ہزاروں غنڈوں کو حکم دیا کہ آج فتح کا دن ہے، ٹوٹ پڑو ان مخالفوں پر ، قتل کردو انہیں، بس پھر کیا تھا، چاروں طرف سے کلاشن کوفوں کے منہ نظر آئے ، گولیاں چلیں، کہرام مچا، جلوس کے گزر جانے کے بعد پتا چلا کہ غنڈوں کا جلوس، قاتلوں کا جلوس، تو پندرہ بیس افراد کو قتل کر کے اور کچل کے چلا گیا ہے، جو لوگ شہید ہوئے ان کا تعلق ’’ب ‘‘گروپ سے ہے ، جو بچارے بالکل بے گناہ تھے، کیونکہ (انجمن ،س۔ص)کی دشمنی تو ’’ش ‘‘ گروپ سے ہے ، مارے گئے بے چارے ’’ب‘‘ گروجپ والے۔ جب ’’ ش‘‘ گروپ نے یہ دیکھا کہ ہماری بجائے ’’ب‘‘ گروپ کے بے گناہ افراد مارے گئے ہیں تو انہوں نے ’’ ب ‘‘گروپ کا ہر طرح کا ساتھ دینے کا عہد کیا، اب دونوں گروپ عدالت سے انصاف چاہتے ہیں اور ان کا پہلے اور آخری مطالبہ یہ ہے کہ مولانا جھنگوی کو پھانسی دو، یہ کچھ ہے اس فائل میں اور فائل میں موجود ایف آئی آر کی نقل میں،آئی جی مختار احمد نے ریکارڈ روم میں داخل ہوتے ہوئے مختصراً تمام بات بتادی۔
یہ بالکل جھوٹ ہے سر۔ اسی لئے تو ہم کیسٹ اور اپنی پرائیویٹ فائل لیکر آپ کے پاس آئے ہیں، یہ فائل ہماری اپنی ترتیب دی ہوئی ہے ، اس میں تمام واقعات درج ہیں، رہائی، جلوس اوراگلے روز کے جمعہ کے ۔دشمن نے گہری سازش سے کام لیا ہے ، مولانا اور ان کے خاص ساتھی جھوٹے مقدمہ قتل میں ملوث کئے گئے ہیں۔ کیسٹ دیکھ کر آپ حقیقت جان لیں گے ، یہ تو آپ کو علم ہی ہے کہ ہم یہاں تک کس طرح آئے ہیں، ہمارا ایک ساتھی بھی ختم ہوگیا ہے۔ دشمن جان چکا تھا کہ جو کیسٹ لے کر ہم جارہے ہیں اس کی بنا پر پولیس رپورٹ بدل جائے گی، اسی لئے ہمیں ختم کرانے کی کوشش کی گئی ہے، ان دو میں سے ایک نے بتایا۔
کیا یہ کیسٹ آپ کے صرف ایک ہی ہے ، اس کی کاپی نہیں ہے ؟
اتنا ہوش ہی نہ رہا کہ کیسٹ ڈبل کرلی جائے اور پھر ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ دشمن کو پتا چل جائے گا۔
ٹی وی آن کرو۔ آئی جی مختار احمد نے طارق کو حکم دیا۔
سکرین پر تصویر ابھری، ہزاروں افراد ہاتھوں میں جھنڈے اٹھائے نظر آئے، مولانا جھنگوی جیل سے نکلتے نظر آئے، اپنے شہر تک کوئی بات نظر نہ آئی، بالکل پر امن جلوس تھا، اگلے دن کی تقریر بھی ایسی کوئی خاص گرم نہیں تھی۔
یہ تو واقعی جھوٹا کیس بنایا گیا ہے ، تمام کیسٹ دیکھ لینے کے بعد آئی جی صاحب بولے۔
اصل میں ہوا کیا تھا؟انسپکٹر ارسلان نے پوچھا۔
جلوس پر امن آرہا تھا کہ اچانک ’’ ش‘‘ گروپ کے افراد نے جلوس کے اختتام پر فائرنگ کرکے تماشائیوں میں موجود ’’ب‘‘ گروپ کے افراد کو قتل کردیا، اس پروگرام پر عمل اس وقت ہوا جس وقت جلوس کے شرکاے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے، ورنہ وہ یہ حرکت نہیں کرسکتے تھے۔ ایک نے کہا۔
اسی طرح جوناب جانے والے جلوس کے بارے میں بالکل غلط بیان کیا گیا ہے ۔ دوسرا بولا۔
بہت جلد مولانا اور ان کے ساتھ راہا کردیئے جائیں گے ، آپ لوگ بے فکر ہوکر جائیں، آپ کے ڈرائیور کے قاتلوں کو نہیں چھوڑا جائے گا، آئی جی صاحب نے کہا۔
اس کیسٹ کی ایک نقل اپنے پاس رکھ لو، انسپکٹر ارسلان نے کیسٹ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
پولیس لاش کو، آپ کو اور میری رپورٹ کو لیکر جائے گی، رپورٹ جلد ہی عدالت میں پیش کردی جائے گی۔ آئی جی صاحب نے کہا۔
اگلے روز نئی پولیس رپورٹ روانہ کردی گئی، تین دن بعد اخبار میں خبر آگئی کہ مولانا اور ان کے ساتھ رہا کردیئے گئے ہیں۔ انسپکٹر ارسلان اپنے دفتر میں بیٹھے یہ خبر پڑھ رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی، اخبار پرسے نگاہیں ہٹاتے ہوئے انہوں نے ریسیور اٹھایا۔
ارسلان، انہوں نے کہا۔
مسٹر ارسلان، مولانا جھنگوی تو رہا ہو ہی گئے ہیں، اب ان آٹھ افراد کو رہا کردو، جن کو تمہارے بچے گرفتار کرکے لائے ہیں، دوسری طرف سے کسی نے کہا۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے جناب، وہ قاتل ہیں۔
تو پھر کیا ہوا؟ اصل مسئلہ تو مولانا کی رہائی کا تھا، وہ ہوگئے۔
ارادۂ قتل ، دوہرے قتل کے مجرموں کو میں کیسے چھوڑ دوں۔
دوہرا قتل، دوسری طرف سے حیران ہوکر کہا گیا۔
کمرۂ امتحان میں یہ اپنی زبان بند نہ رکھ سکے اور انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ’’ب‘‘ گروپ کے افراد کے قاتل بھی ہم ہی ہیں، اب آپ بتائیں میں دوہرے قتل کے مجرموں کو کیسے چھوڑ دوں؟
کیا تم انجان ہو؟
کیا مطلب؟ وہ چونک اٹھے۔
کیا تم نہیں جانتے کہ کس سے مخاطب ہو؟
اس وقت میں اپنے ملک کے ایک وزیر سے مخاطب ہوں،انہوں نے پرسکون آواز میں کہا۔
مسٹر ارسلان میرا تعلق ’’ش‘‘ گروپ سے ، اس وقت ملک میں حکومت بھی ’’ش‘‘ گروپ کی ہے اور اسمبلی میں ممبران کی کل تعداد میں سے 95فیصد ’’ش‘‘ گروپ سے تعلق رکھتی ہے، صرف5فیصد دوسرے لوگ موجود ہیں۔ فوج اور پولیس کے علاوہ تمام سرکاری اور غیر سرکاری ادارں پر اعلیٰ عہدوں پر ’’ش‘‘ گروپ کے افراد تعینات ہیں۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی تم قاتلوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہو؟
میں قانون کا محافظ ہوں، قانون توڑنے والا کیسے بن جاؤں۔
نہیں بنو گے تو قانون کے محافظ بھی نہیں رہو گے، شام تک فیصلہ کرلو، اگر چار بجے تک ان قاتلوں کو رہا نہ کیا گیا تو ٹھیک پانچ بجے تمہاری معطلی کے آرڈر جاری کردیئے جائیں گے۔
اللہ مالک ہے۔ انہوں نے مضبوط لہجے میں کہا۔
گویا تمہاری طرف سے صاف انکار ہے، دوسری طرف سے غراہٹ آمیز لہجے میں پوچھا گیا۔
میں قاتلوں کو ہرگر نہیں چھوڑسکتا۔
پھر تم محکمہ سراغ سرانی میں نہیں رہ سکتے۔
میں کوئی اور کام کرلوں گا۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔
تم یہ بھی نہیں کرسکو گے، شاید تم نہیں جانتے کہ ’’ش‘‘ گروپ کیا بَلا ہے۔ کتنی بڑی قوت ہے اس کے پاس اس کا اندازہ تمہیں اس وقت ہوگا جس وقت تم اس دنیا کو چھوڑ رہے ہوگے۔


میں کسی ’’ ش‘‘ گروپ سے نہیں ڈرتا ، میں صرف اور صرف اپنے اللہ سے ڈرتا ہوں اور جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اللہ ان کے دلوں سے غیروں کا رعب نکال دیتا ہے ۔
ملک میں ہونے والی تخریب کاری اور بموں کے دھماکوں کو مت بھولو، تمہیں بھی کسی ایسے ہی حادثے کا شکار کردیا جائے گا۔
میں موت سے نہیں ڈرتا۔ انہوں نے سرد آواز میں کہا۔
پانچ بجے فیصلہ ہوجائے گا۔ دوسری طرف سے ریسیور رکھ دیا گیا۔
اب کیا ہوگا سر۔ کاشف نے پوچھا۔
کچھ نہیں ہوگا تم وہ فائل نکالو جو انجمن ’’س۔ص‘‘ کے کارکنِ خاص دے گئے ہیں، میں اس کا مطالعہ کروں گا، انہوں نے حکم دیا۔
وہ فائل میں گم ہوگئے ان کی نگاہوں کے سامنے فلم سی چل رہی تھی، اچانک وہ چونک اٹھے۔
تخریب کار
ویگنوں اور بسوں کا ایک جلوس بڑی تیزی سے ایک بہت مشہور سڑک پر جارہا تھا ، بسوں کی چھتوں پر اتنا رش تھا کہ تمام افراد دائیں بائیں ، آگے پیچھے ہل بھی نہیں سکتے تھے، یہی حال اندر تھا، گرمی پورے جوبن پر تھی، سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا، ہزاروں کا یہ قافلہ ہاتھ میں جھنڈے اٹھائے ہوا تھا، ان کے نعروں کی آواز سن کر راہ چلتے لوگ رک گئے، لوگ کھیتوں سے نکل آئے ، عجیب منظر تھا جو نعرہ جلوس والے لگا رہے تھے، اس کا جواب راہ چلتے لوگ بھی پُرجوش انداز میں دے رہے تھے، شہر جھنگ پور سے چلنے کے بعد چالیس کلو میٹر بعد جلوس کے قائدین نے رکنے کا اشارہ کیا، اگلی ویگن پر لاؤڈ اسپیکر فٹ تھا، اس کی آواز بہت دور تک پیچھے بھی آرہی تھی، جولس رکا۔(انجمن۔س،ص) کا صدر اس ویگن سے اترا جس میں مسلح افراد کھڑے تھے، ان کے علاوہ بھی بسوں اور ویگنوں میں موجود افراد میں سے بہت سوں کے پاس پستول ، خنجر، چاقو، کلہاڑیاں وغیرہ تھیں۔ صدر نے اتر کر سپیکر پر اعلان کیا:
’’
تمام وہ کارکن جن کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے وہ نیچے آجائیں، سامنے لکڑیوں کا ٹال ہے ، وہاں سے ایک ایک ڈنڈا لکڑی اٹھالو، پیسے ادا کردیئے گئے ہیں، جلدی کرو، ابھی سفر بہت بقایا ہے، اور اپنے اپنے پیسوں سے برف خرید لو، ایک ایک کلو برف ہر شخص ، ہر نوجوان خریدے، رومال پانی سے بھگو لوہوسکتا ہے ہے آگے چل کر پولیس جلوس کو روک لے، ہمیں ہر حال میں شہر جوناب میں داخل ہونا ہے ، یہ ہمارا احتجاجی جلوس ہے ، ہم پر امن جارہے ہیں ، اگر ہمیں روکنے کی کوشش کی گئی تو پھر ہر رکاوٹ کو ہٹاتے ہوئے گزر جائیں گے، ہم ہر صورت میں جوناب پہنچیں گے، وہاں پر امن مظاہر ہوگا۔ اس وقت تک دھرنا مارکر جوناب کے چوک میں بیٹھے رہیں گے جب تک جوناب کاڈی سی مولانا جھنگوی کی رہائی کے آرڈر نہیں کردیتا‘‘۔
’’
نعرہ تکبیر‘‘ ایک نوجوان نے مائیک پر نعرہ لگایا۔
’’
اللہ اکبر‘‘ ہزاروں آوازیں مل کر بلند ہوئیں۔
’’
صداقت صدیقؓ ‘‘ نعرہ بلند ہوا۔
’’
زندہ باد‘‘ جواب میں فضا میں ہلچل مچ گئی۔
’’
عدالت فاروقؓ ‘‘ مائیک سے نعرہ بلند ہوا۔
’’
زندہ باد‘‘ تمام نے پوری قوت سے کہا۔
’’
احیائے عثمانؓ ‘‘کئی نوجوانوں نے مل کر نعرہ لگایا۔
’’
زندہ باد‘‘ جواب میں فضا میں ہلچل مچ گئی۔
’’
شجاعت علیؓ ‘‘ مائیک سے نعرہ لگا۔
’’
زندہ باد‘‘ سب پوری طاقت سے بولے۔
’’
شان صحابہؓ ‘‘ نعرہ گونجا۔
’’
زندہ باد‘‘ بچہ ، بوڑھا، نوجوان سب بولے۔
’’
شان اہل بیتؓ ‘‘ ایک جوان نے بس کی چھت پر سے نعرہ لگایا۔
’’
زندہ باد‘‘ جلوس کے شرکاء نے اوپر دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’
نعرہ رسالت‘‘ ایک بوڑھے نے پُرجوش انداز میں کہا۔
’’
محمد رسول اللہ‘‘ جواب میں سب بلند آواز سے بولے۔
’’
تاج وتخت ختم نبوت‘‘ سب سے پچھلی بس سے نعرہ لگا۔
’’
زندہ باد‘‘ ہزاروں افراد نے مُکّے لہرا کر جواب دیا۔
’’
مولانا جھنگوی کو‘‘ نعرہ بلند ہوا جو کہ مطالبہ تھا۔
’’
رہا کرو‘‘ سب ڈنڈے لہراتے ہوئے چلائے۔
’’
شرم کرو ، شرم کرو، جھنگوی کو رہا کرو‘‘۔
اسی طرح کے نعرے بلند ہوتے رہے جلوس چلتا رہا ، شدید گرمی تھی، جہاں کنواں نظر آتا وہیں سٹاپ کرلیتے، جہاں ٹیوب ویل نظر آتا وہیں رک جاتے، اسی طرح پانی پیتے وہ آگے بڑھتے رہے، ایک موڑ مڑنے کے بعد اچانک بریکیں لگیں۔ مظاہرین نے گردنیں کھڑکیوں سے باہر نکال کر دیکھا کہ کیا معاملہ ہے۔ سامنے سڑک پر پولیس اس طرح کھڑی تھی جیسے جنگ کے موقع پر فوج بارڈر پر کھڑی ہوتی ہے ، پولیس ہر طرح کے سازوسامان سے لَیس تھی۔ اسلحہ والی ویگن سے نوجوان سے رائفلیں اٹھائے باہر نکل آئے، رائفلوں کے رخ پولیس والوں کی طرف ہوگئے، پستولوں کے رخ پولیس والوں کی طرف ہوگئے، ادھر سے پولیس کے جوانوں نے رائفلیں سیدھی کرلیں۔ ڈنڈے تان لئے، شیل پھینکنے کی تیاری کرلی، ادھر سے ہزاروں پر جوش نوجوان ڈنڈے اٹھائے نعرے لگاتے نکل آئے، (انجمن۔س،ص) کا صدر آگے بڑھا۔
کیا چاہتے ہیں آپ؟ صدر نے پوچھا
جلوس کو روکنا ہے، آپ لوگ واپس چلے جائیں ، ہمیں حکم ملا ہے کہ جلوس کسی بھی صورت میں جوناب شہر میں داخل نہ ہونے پائے، ایک سب انسپکٹر نے کہا۔
پھر تو معاملہ گڑ بڑ ہوجائے گا، ہمیں ہر حال میں جوناب جاکر مظاہرہ کرنا ہے تاکہ جوناب کا ڈی سی جس کا تعلق ’’ش ‘‘ گروپ سے ہے وہ عقل کے ناخن لے کہ کن کو چھیڑ بیٹھا ہوں۔ ہم مولانا کی خاطر اتنی بڑی تعداد میں نہیں آئے، ہمیں تو وہ مقدس مشن کھینچ لایا ہے جس پر مولانا چل رہے ہیں۔ صدر نے کہا۔
ہم لاٹھی چارج کردیں گے، پولیس آفیسر نے کہا۔
ہمارے پا س بھی لاٹھیاں ہیں، صدر نے فوراً جواب دیا۔
ہم آنسو گیس استعمال کریں گے ، فائرنگ کردیں گے ۔
ہمارے پاس بھی اسلحہ ہے ، برف ہے، آنسو گیس کے لئے۔
اس کا مطلب ہے تم پیچھے نہیں ہٹو گے، پولیس آفیسر غرایا۔
اپنے لہجے میں کنٹرول کرو، ایک بات ہمارے نوٹس میں ہے کہ ہمارے راستے میں جتنی بھی پولیس لائی گئی ہے وہ سب کی سب ’’ش‘‘ گروپ کی ساتھی اور ہم مذہب ہے ، تمہارے ساتھ تو ویسے بھی دشمنی ہے اور ہمارا مشن بھی تمہارے خلاف ہے، راستہ چھوڑ دو ورنہ تمہاری لاشوں پر سے گزر جائیں گے ، صدر کے یہ الفاظ سن کر نوجوان لڑنے مرنے کے لئے تیار ہوگئے۔
ہٹ جاؤ۔ سب انسپکٹر نے پولیس نفری کو اشارہ کیا۔
جلوس نکل گیا، پولیس کی گاڑیاں اس کے پیچھے چل پڑیں، اسی طرح کئی مقامات پر جلوس کو روکنے کی کشش کی گئی، لیکن سیلابِ حق بھلا کہاں رکا کرتا ہے، ایک نہر کے کنارے اتر کر کارکنوں نے ، شرکاء جلوس نے پانی پیا، نہر کے کنارے گلے ہوئے نکلے کا پانی برف کے یخ پانی سے قدرتی طور پر زیادہ ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔ ایک نلکے پر دو، دو سو افراد ٹوٹے ہوئے تھے، یہاں سے چل کر جلوس دن کے بارہ بجے کے قریب شہر جوناب میں داخل ہوا۔ جوناب پولیس اس طرح پھیلی ہوئی تھی کہ میدان جنگ کا منظر نظر آرہا تھا، نیم فوجی دستے گاڑیوں پر تیار بیٹھے تھے ، جونہی جلوس شہر میں داخل ہو ہر طرف شور مچ گیا۔ خوف کی ایک لہر سی دوڑ گئی، پولیس کے ہزاروں سپاہیوں کی رائفلیں جلوس کی طرف تن گئیں ، ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے، ٹانگیں لرز رہ تھیں، پورے بدن پر کپکپی طاری تھی، رائفلیں ہاتھوں میں ناچ رہی تھیں۔(انجمن۔س،ص) کے نوجوان بھی اسلحہ لیکر سینہ تان کر بے خوف وخطر بسوں کی چھتوں پر اس طرح کھڑے ہوگئے جیسے مورچے پر سپاہی کھڑا ہوتا ہے ، ہر لمحے یہی در تھا کہ خونی لڑائی چھڑ جائے گی، کیونکہ پولیس کی 95فیصد نفری ’’ش‘‘ گروپ پر مشتمل تھی، یعنی ان کا تعلق ’’ش‘‘ گروپ سے تھا، پانچ فیصد مسلمان پولیس والے تھے، وہ پریشان تھے کہ اگر لڑائی چھڑ گئی تو ’’ش‘‘ گروپ ، ایس پی کا حکم مانیں یا جلوس کے مسلمان شرکار کا ساتھ دیں۔ اسی کشمکش میں جلوس شہر کے بڑے شوک تک آگیا، آگے جا کر جلوس والے ایک طرف ہوگئے، پولیس ایک طرف ، اب دونوں پارٹیاں امنے سامنے کھڑی تھیں ، پولیس پارٹی کی طرف سے ایس پی جوناب مائیک پر آیا، ادھر سے انجمن کا صدر اور سیکرٹری آگے آئے۔ بات چیت شروع ہوئی ، ادھر سے وہ مائیک پر سوال کر رہے تھے ، ادھر سے یہ مائیک پر جواب دے رہے تھے۔ بالاخر چند تقاریر کے بعد ایس پی جوناب نے ڈی سی سے رابطہ قائم کیا اور ہائی کے آرڈر لئے۔ جلوس کے قائدین سے بات چیت کی، نماز کے بعد مزید بات چیت کے لئے علمائے کرام یعنی قائدین پولیس آفیسروں کے ہمراہ چلے گئے، جلوس کو پر امن واپسی کے لئے حکم دیا گیا۔
ظہر کے بعد جلوس واپس چل پڑا، واپسی کا راستہ بھی وہ تھا جس طرف سے جلوس آیا تھا ، واپسی پر جلوس بکھر گیا، منظم نہ رہا، کوئی ویگن ایک کلو میٹر آگے تھی کوئی دو کلو میٹر یعنی ہر بس اور ویگن میں فاصلہ کئی کئی کلومیٹر کا بڑھ چکا تھا، منتشر جلوس پر امن جارہا تھا کہ ایک خاص مشہور چوک سے گزرتے ایک بس پر دائیں سمت سے فائرنگ ہوئی۔ اس وقت اکیلی بس چوک کراس کر رہی تھی، بقایا پیچھے آرہی تھیں، درمیان میں پولیس کی بے شمار گاڑیاں حائل ہوچکی تھیں، چند بسیں اور ویگنیں آگے بہت آگے جاچکی تھیں، منتشر جلوس ’’ش‘‘ گروپ کی گہری سازش کا شکار ہوچکا تھا، دائیں سمت نوجوان نیچے اتر آئے، اچانک سڑک کے ساتھ دکانوں پر سے افراد اٹھ کر بلڈنگوں کی طرف بھاگے، کوئی نہ سمجھ سکا کہ کیا ہوا ہے ۔ اچانک جلوس کے شرکاء میں سے ایک نوجوان چلایا۔
ساتھیو! ہمارا ایک آدمی ’’ش‘‘ گروپ کے افراد نے پانچ دکانوں میں سے ایک میں بند کردیاہے، دکان کا تالا توڑ دو، جن بلڈنگوں پر سے فائرنگ ہورہی ہے ان پر ٹوٹ پڑو۔انجمن کا طوفان بلڈنگوں کی طرف بڑھا، بلڈنگوں پر موجود ’’ش‘‘ گروپ نے بھاری دروازے بند کرلئے، نوجوان اس دکان کی طرف آئے جس پر شک تھا کہ اس میں ہمارا ساتھی بند کر کے ’’ش‘‘ گروپ بھاگ گیا ہے ، جونہی نوجوان مشتعل ہوکر پانچوں دکانوں پر ٹوٹے، اس علاقے کا سب انسپکٹر آگے بڑھا، اس کے ساتھ ایک کانسٹیبل بھی رائفل لئے آگے آیا، بقایا تین چار سو کے قریب پولیس والے چوک میں کھڑے رہے۔
تخریب کارو۔ یہ کیا کر رہے ہو؟ سب انسپکٹر نے قریب آکر کہا۔
ہم تخریب کار ہیں۔ ایک نوجوان نے سوال کیا۔
ہاں تم ملک دشمن ہو، تخریب کار ہو، ملکی امن کے قاتل ہو، ملک دشمن عناصر ہو۔
ہمارا ایک آدمی اندر بند کردیا گیا ہے، ہم اسے چھوڑ کر نہیں جاسکتے ، دروازہ توڑدو۔
تالے پر فائر کیا گیا، اسی وقت سب انسپکٹر نے مداخلت کی، اس پر ڈنڈوں کی بارش ہوگئی، ایک ڈنڈا کانسٹیبل کی ناک پر لگا۔ اس کے ہاتھ سے رائفل چھوٹ گئی، اسی وقت دروازہ کھل گیا، اندر سے ایک شخص نکلا، سب انسپکٹر اور کانسٹیبل پیچھے ہٹ گئے، نوجوان ، کانسٹیبل کی رائفل اور تھانیدار کا پستول لیکر چلتے بنے۔ جلوس آگے پیچھے چل رہا تھا، انجمن کے نوجوان خوش وخرم اطمینان سے جارہے تھے ، انہیں یہ علم نہیں تھا کہ وہ ’’ ش‘‘ گروپ کی گھناؤنی سازش کا شکار ہوچکے ہیں، انہیں اس وقت ان بلڈنگوں کے قریب نہیں رکنا چاہئے تھا جہاں سے فائرنگ ہوئی تھی، کیونکہ ’’ش‘‘ پولیس کو بہانہ بنانا تھا وہ بن گیا کہ جی دکانوں پر توڑ پھوڑ کی ہے ، جونہی جلوس شہر سے نکل کر دور ریگسانی علاقے میں آیا، جہاں میلوں تک ریت ہی ریت پھیلی ہوئی تھی، سارا علاقہ تھل کا تھا، پانی کا کہیں نام ونشان بھی نظر نہیں آرہا تھا، سخت دھوپ تھی ، ریت گرمی کی شدت سے تپ رہی تھی، اس مقام پر آکر اچانک پولیس نے گھیرا ڈال لیا، گھیرا اس انداز سے ڈالا کہ جلوس کی اگلی ویگنیں پہلے ہی پولیس نے آگے سے قابو کرلی تھیں، اسلحہ ہتھیا لیا تھا، پیچھے آنے والوں کوعلم بھی نہیں تھا کہ تحصیل چوب کی پولیس رکاوٹیں کھڑی کرچکی ہے ، اور چاروں طرف پھیل کر ریت کے ٹیلوں کے پیچھے پوزیشن لے چکی ہے ۔ گھیراؤ مکمل ہوتے ہی پولیس کی طرف سے لاؤڈ سپیکر پر ایس پی نے اعلان کیا۔
’’
بھون ڈالو انہیں‘‘
چلتے ہوئے جلوس پر چاروں طرف سے گولیاں برسنے لگیں، ہر طرف چیخ وپکار مچ گئی، بسوں کی چھتوں پر موجود جن نوجوانوں کے پاس پستول اور بندوقیں تھیں انہوں نے جوابی فائرنگ کی، مگر دو ریت کے ٹیلوں کے پیچھے چھپے کانسٹیبلوں کا کچھ نہ بگڑا۔ آہستہ آہستہ فائرنگ میں تیزی آتی جارہی تھی، بسوں ویگنوں کے ٹائر پھٹ گئے، نوجوانوں نے بسوں پر سے ریت کے میدان پر دائیں سمت چھلانگیں لگا دیں، عین اسی وقت آندھی اور طوفان کی مانند آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، ہر طرف بارود اور دھواں تھا، تمام لوگ کلمہ پڑھ رہے تھے کہ نہ جانے کب گولی آلگے، لمحہ بہ لمحہ گھیراؤ تنگ ہوتا جارہا تھا، انجمن کے نوجوانوں کے پستول خالی ہوچکے تھے، بندوقیں خالی ہوچکی تھیں، نہتے بچوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں کو چاروں طرف سے رائفلوں کی زد پر رکھ کر پولیس نے لاٹھی چار ج کردیا۔ وہ مارتے جارہے تھے اور رسیوں ، رومالوں وگیرہ سے ہاتھ پاؤں جکڑتے جارہے تھے، کتنے ہی افراد کو برہنہ کے کر مارا گیا، نیچے تپتی ہوئی ریت تھی، اوپر چمک دار سورج، اس پر پیاس کی شدت اور ظالم ’’ ش‘‘ گروپ پولیس کا تشدد ، ہر طرف ریت پر خون کے چھینٹے گر رہے تھے، چند کانسٹیبل ان میں ایسے بھی تھے جن کو نوجوانوں پر ترس آرہا تھا اور وہ ’’ ش ‘‘ گروپ سے تعلق رکھنے والوں کو مارنے سے روک رہے تھے، پولیس نے اس طرح گھیرا ڈالا تھا کہ کوئی بھی شخص نکل نہیں سکتا تھا اور نکل کر کرتا بھی کیا۔چاروں طرف ریت کا سمندر تھا، آگے بھی شہر پچیس تیس کلو میٹر دور تھا اور پیچھے بھی، وہ درمیان میں پھنس کر رہ گئے تھے، دور دور تک پانی کا نام ونشان بھی نہیں تھا۔ جب پولیس والے ماں، بہن اور بیٹی کی گالیاں دیتے ہوئے مار مار کر تھک گئے تو ہانپتے ہوئے ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہوگئے۔ انجمن کے جوان گرم ریت پر پڑے تڑپ رہے تھے، بوڑھے جان کنی کی حالت میں پڑے تھے، نو عمر بچے ریت میں لت پت پیاس سے تڑپ رہے تھے۔ سب کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، ایس پی نے چند کانسٹیبلوں کو پانی کے لئے دوڑایا ، وہ پانی لینے چلے گئے۔ اِدھراُدھر زخمی بے ہوش پڑے تھے، کئی افراد ظالم پولیس کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے تھے، مشن پر قربان ہوچکے تھے۔
جن افراد کو گولی لگی ہے اور وہ شدید زخمی ہیں، وہ باہر نکل آئیں تاکہ انہیں ہسپتال پہنچایا جاسکے، ایس پی نے جیپ میں لگے مائیک پر اعلان کیا۔
کئی افراد اٹھے، وہ شدید زخمی تھے، پولیس کے ہٹے کٹے نوجوانوں، نوجوانوں نے انہیں لاٹھیاں سروں پر مارتے ہوئے یہ کہہ کر بٹھایا کہ تم معمولی زخمی ہو۔ خون بہتا رہا، وہ ظالم کھڑے قہقہے لگاتے رہے، گالیاں دیتے رہے( انجمن۔س،ص) کے جھنڈوں کو جلا دیا گیا ، جن پر ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ،حسنؓ، معاویہؓ،اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور ایک حدیث لکھی ہوئی تھی۔ حدیث پاک یہ تھی کہ :
’’
میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جن کی پیروی کروگے ہدایت پاؤ گے‘‘
اس وقت تک تمہیں گھروں کو نہیں جانے دیا جائے گا جب تک کہ رائفل اور پستول برآمد نہیں ہوجاتا جو تم لوگ چوک میں سے سب انسپکٹر اور کانسٹیبل سے چھین کر لائے ہو۔ ایس پی نے اعلان کیا۔
پیشاب کرنا ہے ، ایک بوڑھے شخص نے اپنے قریب کھڑے ہوئے سپاہی سے کہا۔
یہیں سب کے سامنے کرو، خبردار جو اٹھے۔ اس نے رائفل میں لگی سنگین بوڑھے کی پسلیوں میں گھونپ دی وہ تڑپ کر گرا۔ اسی طرح بہت سے لوگوں کو جن کو پیشاب کی حاجت تھی مارا گیا۔ دوپہر سے ظلم شروع ہوا اور شام کے وقت ختم ہونے کے آثار نظر آئے۔ عصر کے وقت وہ پولیس والے جو پانی لینے گئے تھے، و ہ بہت دور سے پانی کے گھڑے کندھوں پر اٹھا کر لائے، تمام پولیس والوں نے پانی پیا، ایس پی نے پانی پینے کے بعد مائیک پر اعلان کیا۔
خبردار! کوئی پولیس مین انجمن کے کسی غنڈے اور تخریب کار کو پانی مت دے، اگر کسی نے ایسی کوشش کی تو وہ نوکری سے جاتا رہے گا۔
ایس پی کے اعلان پر انجمن کے افراد، ہزاروں افراد کی نگاہوں کے سامنے، تخیلات کی دنیا میں ۶۱ھ ؁ کے واقعات گھومنے لگے، جب ابن زیاد کی فوج نے کوفیوں کے ساتھ ملکر کربلا کے میدان میں حضرت حسینؓ اور ان کے ساتھیوں پر تین دن پانی بند رکھا ، انجمن کے افراد نے حسینؓ کے صبر پر نگاہ ڈالی اور حضرت حسینؓ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صبر کرلیا۔ پھر ان کی نگاہوں کے سامنے امام مظلوم، امام مدینہ حضرت عثمانؓ خلیفہ سوم کی شہادت کا دردناک منظر گھوم گیا، ان کو چالیس روز تک بھوکا پیاسا رکھ کر شہید کیا گیا تھا، اور یہ شہید کرنے والے کون تھے وہی جنہوں نے حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ کو ان کے 72ساتھیوں سمیت پیاسے شہید کیا تھا، پانی پینے کے بعد پولیس والوں میں پھر دم آگیا، ایک مرتبہ پھر وہ ٹوٹ پڑے۔ عصر سے مغرب کا وقت آگیا لاٹھیاں برستے ہوئے ، تب کہیں جاکر تمام افراد کو اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لئے کہا گیا، سب لوگ افرا تفری میں بسوں، ویگنوں میں سوار ہوکر نکل گئے، سوائے دو تین سو افراد کے کیونکہ کئی ویگنیں اور بسیں ٹائر پھٹ جانے کی وجہ سے بے کار ہوچکی تھیں۔
اب یہ لوگ، یہ تخریب کار کبھی بھی مولانا جھنگوی کے پیچھے نہیں لگیں گے، آج کی یہ مار انہیں ہمیشہ یاد رہے گی، ایک پولیس آفیسر نے کہا۔
اس آفیسر کی بات پر تمام پولیس والوں نے رائفلیں لہرائیں اور جیپوں میں سوار ہوئے، بے کار بسوں اور ویگنوں کو ایک طرف کھڑا کر کے پولیس نے وائر لیس پر پیغام دیا، پیچھے سے ایک بس آئی ، بھاگ دوڑ کر کچھ افراد چڑھ گئے ، بقایا افراد دوسری بس کے انتظار میں تھے کہ اچانک چاروں طرف سے پولیس ٹوٹ پڑی، ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا، پولیس کا منصوبہ یہ تھا کہ صرف چند سو افراد گرفتار کئے جائیں گے، اس کیس میں ہزاروں کو کہاں سنبھالتے پھرتے تھانوں میں، ان کو گرفتار کرکے جوناب جیل لے جایا گیا، مزید تشدد رات بھر کیا گیا، پانی کسی نے مانگا تو اس کی جگہ گلاس میں پیشاب دیا گیا، ڈاڑھی والے افراد کی ڈاڑھیاں توہین رسالت کرتے ہوئے پیشاب سے مونڈھ ڈالیں، اتنا مارا گیا کہ پاخانہ منہ کے راستے نکل گیا۔ بھوکا پیاسا رکھ کر تڑپایا گیا، تین ماہ بعد یہ افراد جیل سے نکلے، یہ کچھ انجمن پر گزرا۔ لوگ ہمارے مشن کو نہیں سمجھتے، آج بھی وہ افراد مشن پر قائم ہیں، تشدد انہیں اس مشن سے نہیں ہٹا سکا، اس فائل کو اعلیٰ حکام تک پہنچانے ، پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف کیاجائے، مولانا صاحب اور جماعت کے کارکنوں پر سے جھوٹے سینکڑوں مقدمات ختم کئے جائیں، ہمارا مؤقف سنا جائے، مطالبے پر غور کیا جائے، فائل کے آخر میں ( انجمن ۔س،ص) کے جنرل سیکرٹری کے دستخط تھے، انسپکٹر ارسلان فائل میں گم ہوچکے تھے، اچانک وہ چونک اٹھے ان کے سامنے آئی جی مختار احمد کھڑے تھے۔
سر۔ مجھے حکم کردیا ہوتا آپ نے کیوں تکلیف کی۔
انسپکٹر ارسلان نے فائل بند کرتے ہوئے کہا۔
ارسلان ، پانچ بج چکے تھے، آئی جی مختار احمد نے غمزدہ آواز میں کہا۔
آپ اسی لئے آئے ہیں ناسر کہ اوپر سے میری معطلی کے آرڈر آچکے ہیں؟
ہاں ارسلان تم ابھی اور اسی وقت دفتر سے نکل جاؤ۔ کاشف ، طارق اور جان محمد کے لئے بھی یہی حکم ہے ۔ آئی جی صاحب نے حکم دیا۔
اوکے سر۔ وہ چاروں اٹھ کر چل دیئے۔
جونہی وہ دفتر سے باہر نکلے ، آٹھوں قاتل اپنی جیپ میں مسکراتے ہوئے جاتے نظر آئے، ان کا خون کھول اٹھا، ایک ایک قدم اٹھاتے ہوئے وہ محکمہ سراغرسانی سے باہر آئے۔ ادھر طارق اور کاشف کے بیوی بچے بھی سامان باندھ چکے تھے، انہیں حکم ملا چکا تھا کہ کوارٹر خالی کردو۔ کاشف اور طارق اپنے اہل خانہ کو لیکر چلے گئے، جان محمد پستول اپنے گھر کی طرف چل دیا۔انسپکٹر ارسلان نے ایک ٹیسکی رکوائی اور گھر روانہ ہوگئے، جونہی وہ گھر کے سامنے ٹیکسی سے اترے ایک ہولناک دھماکہ ہوا، ہر طرف شور مچ گیا، ان کے چہرے کا رنگ اڑگیا۔ دھماکہ اتنا زیادہ شدید نہیں تھا صرف انسپکٹر ارسلان کے گھر کا ملبہ مڑوسیوں کی چھت پر گرا، لوگ اکٹھے ہوگئے، ان کا گھر تباہ ہوچکا تھا۔
ارسلان صاحب ، شکر کریں آپ کے بیوی بچے بچ گئے، انہیں دھمانے سے پہلے اغوا کیا گیا ہے ۔ ایک پڑوسی نے بتایا۔
اوہ۔ الحمدللہ ، ان کے منہ سے نکلا۔
کیاکسی نے اغوا کرنے والوں کو دیکھا ہے ، انہوں نے پوچھا۔
ان ک چہروں پر نقاب تھے، جیپوں میں آئے تھے، پندرہ بیس کے قریب تھے، کلاشن کوف رائفلوں سے لیس تھے۔
کسی شخص کو سکی جیپ کا نمبر یاد ہے ۔
جناب ! کسی نے نمبر دیکھنے کی کوشش نہیں کی، کیونکہ جس وقت وہ لوگ آپ کے بچوں اور بیوی کو اغوا کرکے نکلے، انہوں نے چاروں طرف زبردست فائرنگ کی، جس کی بنا پر ان کے راستے میں آنے والے بھی ایک طرف ہٹ گئے، ادھر آپ کو فون کیا گیا تو آپ کے بارے میں اطلاع ملی کہ معطل کردیئے گئے ہیں، ایک پڑوسی نے بتایا۔
میں ’’ ش‘‘ گروپ کو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ آئند ہ پھر کبھی وہ ملک کو محب وطن پولیس آفیسروں یا کسی بھی محبت وطن اور محب اسلام شخص کے خلاف ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنائیں گے۔ وہ غرائے۔
سبق تو اب ہم تمہیں سکھائیں گے۔ اچانک ایک آواز سنائی دی۔
انہوں نے پلٹ کر دیکھا، ان کے سامنے خطرناک اسلحہ سے لیس افراد کھڑے تھے۔
میرے بچے کہاں ہیں؟
تمہیں بھی وہیں لے جائیں گے ، ساتھ ہی دوسری طرف کاشف، طارق اور جان محمد پستول بھی اغوا کرلئے جائیں گے ، رفعت کو پہلے ہی اغوا کر کے بابر ، توقیر اور تمہاری بیگم سمیت ٹھکانے پر پہنچا دیا ہے ، ایک دشمن نے خطرناک رائفل کا بٹن دباتے ہوئے کہا۔
وہ تڑسے گرے اور بے ہوش ہوگئے،آنکھ کے کھلنے پر وہ حیرت زدہ رہ گئے، وہ ایک عجیب جگہ پر پڑے تھے، ان کے ارد گرد ان کے ساتھ بھی بڑے تھے، وہ ہوش میں آچکے تھے ، وہ سب ایک ایسی جگہ پر موجود تھے جہاں بہترین کرسیاں بچھی ہوئی تھیں، یہ ایک میٹنگ روم تھا، بہت بڑا کمرہ آٹھ دس خالی کرسیاں ایک دیوار کے ساتھ بچھی ہوئی تھیں، اچانک بہت سے افراد کے چلنے کی آواز سنائی دی، اجلاس روم کا بڑا درواز کھلا ، جونہی اندر آنے والے حضرات پر ارسلان کی نظر پڑی، وہ دھک سے رہ گئے، سب سے پہلے ملک کے وان کا سربراہ اندر داخل ہوا، اس ہمراہ بِگ پاور اللریکا ، بِگ پاور جے شین، انڈوآنہ، بارٹش ، فے راس، یہودیان اور بہت سے بڑے بڑے کفار ممالک کے سربراہ مملکت اندر داخل ہوئے اور خاص کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان کے پیچھے اور آگے چلتے ہوئے خصوصی حفاظتی دستہ دائیں بائیں کھڑا ہوگیا، اور پھر سو کے قریب کے دانی دہشت گرد اندر داخل ہوئے ، یعنی ’’ ش‘‘ گروپ کے خاص افراد ، تمام افراد کی نگاہیں ارسلان پارٹی پر جمی ہوئی تھیں۔
ارسلان آج ہم تمہیں اپنے خفیہ اجلاس کی کارروائی سنائیں گے، ایسا اجلاس تم نے زندگی میں کبھی نہیں سنا اور دیکھا ہوگا، جس مولوی کا تم ساتھ دے رہے ہو اس کو ہم جب چاہیں اڑا دیں ، لیکن ایک خاص وجہ ہے، ملک کے وان کے سربراہ نے کہا۔
وہ وجہ میں جانتا ہوں۔ انسپکٹر ارسلان نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
بتاؤ تو بھلا؟ سربراہ نے حیران ہوکر کہا۔
تم تو اس خاص وجہ کی بات کرتے ہو ، میں تو تمہیں تمہارے اس خفیہ اجلاس اور سابقہ اجلاس کے بارے میں بتاسکتا ہوں۔
اوہو! ہم ضرور سنیں گے، جے شین کے صدر نے کہا۔
ہم اس وقت اپنے ملک میں نہیں بلکہ دشمن ملک کے وان کے تخریبی تربیتی کیمپ کے اجلاس روم میں موجود ہیں۔ یہاں ہر سال ایک خاص اجلاس ہوتا ہے اگر ضرورت پیش آجائے تو درمیان میں بھی اجلاس طلب کرلیا جاتا ہے ۔ ایسے خفیہ اجلاس آج سے چودہ سو سال پہلے بھی تمہارے بزرگ کرتے چلے آئے ہیں، جبکہ ابھی اسلام نہیں پھیلا تھا، اس وقت سے پہلے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بے شمار انبیاء کرام کے خلاف یہودیت نے سازش کی، نبیوں کو قتل کیا، حضرت عیسیٰ کے ساتھ بھی سازش کی اور انہیں پھانسی کے تختے تک پہنچانے کی کوشش کی ، مگر اللہ نے تمہارے بزرگوں کا منصوبہ فیل کردیا اور حضرت عیسیٰ کو آسمانوں پر زندہ اٹھالیا، پھر تمہارے بزرگوں نے آقا کے خلاف سازشوں کے پہاڑ کھڑے کردیئے، قتل کرنے کی کوشش بھی کی، اسلام کی جڑیں کاٹنے کے لئے اجلاس ہوتے رہے، عمل ہوتا رہا، لیکن اسلام کو پھیلنا تھاپھیل کر رہا۔ پھر آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ اول بلا فصل کا دور آیا، ان کے بعد حضرت عمر فاروقؓ کا دور آیا، پھر حضرت عثمانؓ ذوالنورین کا دور آیا، ان کے دور میں پھر تمہارے بزرگوں نے اجلاس طلب کیا۔ منصوبے کے مطابق ایک چالاک ترین یہودی عبداللہ ابن سبا کو مدینہ بھیجا گیا، اس نے جھوٹ موٹ اسلام قبول کیا اور زیر زمین اسلام کے خلاف سازش میں مصروف ہوگیا، اس کی سازش رنگ لائی اور منافقوں میں ایک گروہ ایسا تیار ہوگیا جو ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے بالکل الٹ عمل کرنے لگا، ابن سبا یہودی نے ایک نیا اینٹی اسلام مذہب دریافت کیا اور پھر پروپیگنڈہ کر کے اصل دین اسلام کو غلط اور اپنے پیش کردہ دین کو درست کہلوانے لگا۔ ابن سبا یہودی نے سب سے پہلے حضرت عثمانؓ کو شہید کرایا، پھر حضرت علیؓ کو ، پھر حسنؓ اور حسینؓ کو۔ اس وقت سے یہ سبائی گروپ اسلام کے خلاف سازشیں بھی کررہا ہے اور اپنے آپ کو سچا اور پکا مومن مسلمان فرقہ بھی کہلواتا ہے، تمام دنیا عالم اسلام اور عالم کفر اس بائی گروہ، یعنی ’’ش‘‘ گروپ کو مسلمان فرقہ تصور کرتا ہے ، آج تک کسی نے تمہارے خلاف آواز نہیں اٹھائی، سوائے صحابہ کرام کے ، اور آج کے دور میں جب کہ ہر طرف تم چھائے ہوئے ہو ایک ساڑھے چار فٹ کے شخص نے میرے ملک پاک لینڈ کے ایک چھوٹے سے پسماندہ شہر جھنگ پور سے آج سے پندرہ سال پہلے ایک آواز بلند کی ، آج اس کی آواز ملک کے کونے کونے میں گونجتی ہے اور ایک وقت آئے گا(انجمن۔س،ص) کا سیلاب حق تمہیں بہا کر لے جائے گا، تمہارا حال بھی قادیانیت جیسا ہوگا، انسپکٹر ارسلان جذبات میں بہہ چلے تھے۔
جذبات سے باہر آجاؤ ، ارسلان۔اور آج کے اجلاس کے بارے میں بتاؤ، دیکھیں تو سہی ہماری تاریخ جاننے والا آج ہمارے بارے میں کیا جانتا ہے۔ سربراہ بولا۔
آج کا یہ اجلاس اسلام کے خلاف آخری سازش ہے۔
کیا مطلب؟ اجلاس میں شامل تمام افراد چونک اٹھے۔
کیا میں نے غلط کہا ہے ، یہ آخری سازش نہیں ہے ۔
تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن تم یہ بھی بتا سکتے ہو کہ سازش کیا ہے ؟
سنو! انہوں نے سازش کے بارے میں بتا دیا۔
اوہ ! مارے حیرت کے سب کا برا حال تھا۔




عظیم دہشت گرد
تم تو بہت معلومات رکھتے ہوج۔ فے راس کے صدر نے حیرت زدہ ہوتے ہوئے کہا۔
اور وہ خاص وجہ یہ ہے کہ اگر تم لوگ جھنگوی کو ختم کرتے ہو تو پھر پاک لینڈ میں ’’ ش‘‘ گروپ کا ایک بھی فرد زندہ نہیں بچے گا، انسپکٹر ارسلان نے کہا۔
جھنگوی کوہم دوسرے راستے سے ختم کر رہے ہیں۔ کے وان کے سربراہ نے کہا۔
کیا مطلب؟ ارسلان پارٹی چونک اٹھی۔
ہم یعنی پوری دنیا کے ’’ ش‘‘ گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد جھنگوی سے تنگ آگئے ہیں ، اب حال ہی میں اسے چیلنج کیا جائیگا ، دنیا بھر کے ’’ش‘‘ گروپ کے عالم پاک لینڈ میں گروپ بلائیگا، ،جھنگوی کو بھی کھلی چھٹی ہوگی، اپنے جتنے چاہے عالم بلالے، تمام اسلامی ممالک کے سربراہ یا نمائندے بھی وہاں پر موجود ہوں گے ، پوری پاک لینڈ کی عوام ہوگی اور آمنے سامنے فیصلہ ہوجائے گا، اس سلسلہ میں پاک لینڈ کی حکومت ہمارے ساتھ پورا تعاون کررہی ہے۔ تمہیں بھی ہمارے اشارے پر برطرف کیا گیا ہے ، تمہاری پوری قوم کی باگ دوڑ ہمارے ہاتھ میں ہے ۔ کے وان کے سربراہ نے کہا۔
گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے ، جو کام تم کرنا چاہتے ہو یہی تو جھنگوی پندرہ سال سے کہہ رہا ہے کہ آؤ کھلی عدالت میں فیصلہ کرلیتے ہیں۔ 
ارسلان ۔ یہ کام تو چند روز بعدکریں گے یا چند ماہ بعد پہلے تو ذرا وہ کام کرلیں جس کی آرزو بڑی مدت سے ہے اور اب کامیابی بہت قریب ہے ، ایک عرصہ سے ہم سعودیہ میں عین حج کے موقع پر ہنگامے کرا رہے ہیں، یہ ہنگامے، یہ جلوس، یہ ہلڑ بازی، سب ظاہر میں تو اللریکا کے خلاف ہوتی ہے ، لیکن اس کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ مسلمان خوف زدہ ہوکر حج کرنا چھوڑ دیں، سعودیہ کا رخ بھی نہ کریں، دوسرا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ حکومت سعودیہ حج کی خدمات یا کعبہ اللہ کی خدمت ٹھیک طور پر نہیں کررہی ، اس لئے کعبۃ اللہ کا نظام ہمارے سپر د کیا جائے تاکہ ہم پر امن فضا میں لوگوں کو حج کراسکیں۔
صاف کیوں نہیں کہتے کہ قبضہ کر کے خانہ کعبہ کو مسلمانوں کے مرکز کو گرانا چاہتے ہو، تباہ کرنا چاہتے ہو تاکہ مسلمان بالکل ہی مرجائیں، بے غیرت تو پہلے ہی ہو چکے ہیں ہم لوگ۔ سابقہ بم دھماکے اس سلسلے کی کڑی ہیں، تم نے امن کی جگہ دہشت گردی کو جنم دیا ہے اس امن کی جگہ جہاں اونچا بولنا بھی اللہ کو گوارہ نہیں ۔ انسپکٹر ارسلان نے کہا۔
ایک ماہ رہ گیا ہے حج میں، اس مرتبہ عین حج کے موقع پر جس وقت لاکھوں مسلمان حرم میں جمع ہوں گے ہمارے خطرناک بم عین بیت اللہ ، خانہ کعبہ کے اندر حجر اسود کے پاس پھٹیں گے اور کعبۃ اللہ کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی، مسلمانوں کے چیتھڑے اڑ جائیں گے، کعبہ ہمیشہ کے لئے دنیا کے تختے سے مٹا دیا جائے گا ۔ کے وان کے سربراہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
بکواس بند کرو، یاد رکھو جو اللہ ماضی میں ابرہہ بادشاہ کے ہاتھیوں کے لشکر سے جو کعبہ کو گرانے آیا تھا، ننھی ننھی چڑیوں، ابابیلوں کے ذریعہ بچا سکتا ہے وہ اللہ آج بھی اپنے گھر کو تمہاری سائنسی قوت سے بچا سکتا ہے ، یہ تمہاری بھول ہے ، بیشک ہم مسلمان بے ضمیر اور بے غیرت ہوچکے ہیں، لیکن اللہ بہت بڑا ہے ، سب سے بڑا ہے ، وہ اپنے گھر کو نیست ونابود ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ۔ انسپکٹر ارسلان کو سخت غصہ آیا۔
تم اپنی آنکھوں سے خانہ کعبہ میں بم پھٹتے ہوئے دیکھو گے۔ جے شین کے صدر نے کہا۔
ہم اپنی جان پر کھیل جائیں گے پر حرمت کی جگہ پر بارود نہیں پھٹنے دیں گے۔
ان سو افراد کی طرف دیکھ رہے ہو، کے وان کے سربراہ نے دہشت گردوں کی طرف اشارہ کیا۔
ہاں دیکھ رہے ہیں۔ کاشف نے جواب دیا۔
دنیا میں اس وقت جتنے بھی دہشت گرد سرگرم عمل ہیں وہ سب ان کے شاگرد ہیں۔ یہ تمہیں لے کر سعودیہ میں موجود اپنے خفیہ ٹھکانے پر جائیں گے ، عین حج کے موقع پر یہ ایک انوکھا تماشا دنیا کو دکھائیں گے، جس کو دیکھنے کے بعد تم خود بخود ہی مرجاؤ گے، کیونکہ وہ تم جیسے لوگوں کے لئے بہت تکلیف دہ ہوگا اور تمہارے لک کے بہت سے لوگ یہ تماشا دیکھ کر خوش ہوں گے جن میں ’’ش‘‘ گروہ کے افراد بھی ہوں گے ۔
تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ طارق نے چونکتے ہوئے کہا۔
اگر پہلے ہی بتایا تو سسپنس ختم ہوجائے گا، کے وان کے صدر نے ہنستے ہوئے کہا۔
لے جاؤ انہیں اور اپنے منصوبے کے بارے میں بتادو،جے شین کے صدر نے دہشت گردوں سے کہا۔
اگر ہم جانے سے انکار کردیں تو؟ انسپکٹر ارسلان نے پر اعتماد لہجہ میں کہا۔
کیا تم چند افراد ان سو عظیم دہشت گردوں کا مقابلہ کرلو گے؟ نہیں کرسکو گے، اسی لئے اس وقت تم آزاد کھڑے ہو، ورنہ ہاتھ پاؤں زنجیروں سے جکڑے نظر آتے، فے راس کے صدر نے کہا۔
آؤ چلتے ہیں۔ ایک خوفناک دہشت گرد نے اٹھتے ہوئے کہا۔
ہم شرافت سے نہیں جائیں گے ۔ اچانک توقیر نے اپنے والد کی آنکھ کا اشارہ سمجھتے ہوئے کہا۔
چڑیا کے بچے، کیسے نہیں جاؤ گے، دہشت گرد نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
میں انسپکٹر ارسلان کا بیٹا ہوں چڑیا کا نہیں، میں چاہوں تو تم سب کو ابھی اور اسی وقت کرسیوں پر سے اڑاسکتا ہوں، توقیر نے دہشت گرد کے باس سے کہا جو ان کے قریب آکھڑا ہوا تھا۔
کیا تم جادو جانتے ہو؟
ایسا ویسا۔ بہت خطرناک جادو، لو پھر آنکھیں بند کرلو، میں تمہیں اپنے جادو کے زور پر اچھالنے لگا ہوں۔
اگر ہم آنکھیں بند بھی کرلیں تم تب بھی یہاں سے بھاگ نہیں سکتے، دہشت گرد باس نے کہا۔
چلو پھر کھلی آنکھ سے تماشا دیکھو۔ اچانک اس نے اپنے منہ سے ہولناک دھماکے کی آواز نکالی، وہ سب الٹ کر گرے۔ ان کے منہ سے چیخیں نکل گئیں۔
جونہی وہ سنبھلے ان کے رنگ اڑ گئے۔ حفاظتی دستہ کی خوفناک اور خطرناک رائفلیں ، اب ارسلان کے قبضہ میں تھیں۔ اچانک چاروں طر ف سے ان پر گولیاں برسیں، دھڑا دھڑ لاشیں گرنے لگیں، منٹوں میں سب دشمن زمین پر گر کر تڑپنے لگے، صرف ایک شخص کو انہوں نے نہ مارا۔
اٹھو مسٹر باس۔ تم ہمیں لیکر اس خفیہ ٹھکانے تک جاؤ گے، جہاں منصوبے پر عمل کی تیاری ہورہی ہے۔ یہ اجلاس روم ساؤنڈ پروف ہے، گولیوں کی آواز باہر نہیں گئی، لہذا کسی کو علم نہیں ہے کہ اندر کیا ہوچکا ہے ، اس سے پہلے کہ دنیا میں شور پبا ہو ہم اس اڈے کو بردباد کرنا چاہتے ہیں جہاں سے کفروشرک کا طوفان اٹھ کر کعبۃ اللہ کی طرف جانے والا ہے ۔
تت۔۔۔ تمہارے کپڑے تو خود آلود ہوچکے ہیں، شہر میں داخل ہوتے ہی شک کی زد میں آجاؤ گے، یہ عمارت شہر سے باہر ہے ، جنگل کے کنارے۔ باس نے کہا۔
پہلے تم تم باہر نکلو۔ انسپکٹر ارسلان نے رائفل کا رخ بالکل اس کے سر کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
باہر صدروں کی کاریں اور دہشت گردوں کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ وہ ایک گاڑی میں بیٹھ گئے، جان محمد پستول نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی، اچانک انسپکٹر ارسلان کے ذہن میں ایک خیال آیا، انہوں نے مسکراتے ہوئے دہشت گرد باس کی طرف دیکھا۔
ہیلو باس۔۔۔ میں تمہیں دہشت گرد اس وقت مانوں گا جب تم اس عمارت کو بم کے دھماکے سے اڑاؤ گے۔
اس اجلاس میں ہم خالی ہاتھ آتے رہے ہیں، کیونکہ یہاں بموں کی کیا ضرورت ، بم تو پاک لینڈ کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ اس نے مذاق اڑایا۔
اس کی تلاشی لو۔ انہوں نے بابر اور توقیر کو حکم دیا۔ 
ارے۔۔۔ یہ تو بالکل خالی ہاتھ ہے۔ توقیر نے چونکتے ہوئے کہا۔
تم چونکے کس بات پر ہو؟ بابر نے پوچھا۔
میرا مطلب ہے اتنا بڑا دہشت گرد اور جیب سے کوئی کلاشن کوف کا بچہ بھی نہیں نکلا۔
انکل میری نگاہیں کچھ کہہ رہی ہیں۔ رفعت نے اوپر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
لو اب نگاہیں بھی بولنے لگیں، توقیر جھٹ سے بولا۔
دور بہت دور کئی کلو میٹر کے فاصلے پر چند سائے سے ، دھبے سے نظر آرہے ہیں۔ رفعت بولی۔
ہیلی کوپٹر ہوں گے ، دارالحکومت میں پتا چل گیا ہوگا کہ ادھر گڑ بڑ ہے۔ بابر نے کہا۔
پھر تو یہ راستا کاٹ دینا چاہئے، کاشف نے کہا۔
مسٹر باس۔۔۔ خفیہ راستے سے ہمیں پڑوسی ملک اے راکس لے چلو۔ ورنہ انجام تو تم جانتے ہی ہو کہ بہت خطرناک ہو گا۔ انسپکٹر ارسلان غرائے۔
تم چاروں طرف سے گھر چکے ہو، اب تم سیدھے سعودیہ لے جائے جاؤ گے، اب وہ منظر تمہیں ضرور دکھا یا جائے گا ، وہ تماشا تمہیں ضرور دکھایا جائے گا۔
حیرت ہے اتنی جلدی شہر کے حکام کو کس طرح علم ہوگیا کہ یہاں کیا ہوچکا ہے۔
ارسلان۔۔۔ تمہارے بار میں تو بہت کچھ سنا تھا، لیکن تم سب تو بے وقوف نظر آتے ہو۔
کیا مطلب؟ ارسلان پارٹی چونک اٹھی۔
تمہارے بیٹے نے نقلی دھماکہ کیا ، لیکن یہ بات تم بھول گئے کہ کیا ہم اپنا بندوبست کئے بغیر ہی اتنے اہم اجلاس میں آگئے ہوں گے، جب کہ ہمیں یہ علم بھی ہو کہ پاک لینڈ کی خطرناک جاسوسی پارٹی ، ارسلان پارٹی بھی اجلاس میں ہوگی۔ باس نے کہا۔
اس کا مطلب ہے کہ سب لوگ زندہ ہیں۔انسپکٹر ارسلان بولے۔
ہاں۔۔۔ وہ خون نقلی تھا جسم کے ساتھ بندھے ہوئے پلاسٹک کے تھیلے پھٹے تھے، گولیاں نہیں چلی تھیں، خالی دھماکے تھے جیسے تمہارے بیٹے نے کرتب دکھایا اور اس وقت تم چاروں طرف سے سو کے قریب انہی دہشت گردوں کے گھیرے میں ہو۔
ہیلی کاپٹر ہمیں لے جانے کے لئے آرہے ہیں؟ رفعت نے سوال کیا۔
ٹھیک سمجھی ہو۔ دہشت گردوں کے باس نے کہا۔
ایک گھنٹے بعد تم لوگ خفیہ اڈے پر پہنچ جاؤ گے، اچانک ایک آواز لہرائی۔
سڑک کے دونوں طرف دہشت گرد موجود تھے، مجبوراً انہیں رکنا پڑا۔ اور ویسے بھی وہ اس اڈے تک جانا چاہتے تھے جہاں مسلمانوں کے مرکز بیت اللہ کے خلاف سازش ہورہی تھی، ایک چوڑی سڑک پر ہیلی کاپٹر اڑے، انہیں سوار ہونے کے لئے کہا گیا ، باس ان کے ہمراہ سوار ہوا۔ بقایا دہشت گرد دوسرے ہیلی کاپٹروں میں سوار ہوگئے۔ باس نے نیچے کی طرف ہاتھ ہلایا، نیچے عماعت کے باہر صدر اور خصوصی دستہ کھڑا تھا، سربراہ انہیں رخصت کر رہے تھے۔
تم ( اے راک) کی فضائی حدود کیسے پار کروگے؟ انسپکٹر ارسلان نے پوچھا۔
یہ ہمارا کام ہے ، تم فکر نہ کرو۔ باس مسکرایا۔
پھر بھی کیسے؟ انہوں نے اصرار کیا۔
ہم ( اے راک) کی طرف سے جائیں گے ہی نہیں ملک یہودیان کی طرف سے جائیں گے ۔
ہوں۔۔۔ وہ سوچ میں ڈوب گئے۔
ارسلان کیا تم کچھ اندازہ لگا سکے ہو کہ ہمارا منصوبہ کیا ہے ، ملک کے وان کا منصوبہ کیا ہے؟
تمہارا انجام ابرہہ جیسا ہوگا، تھوڑا بہت اندازہ تو میں کر چکا ہوں۔
لیکن تم کسی بھی صورت میں کعبۃ اللہ کو نہیں بچا سکو گے، دنیا بھر کی سائنسی قوت استعمال کی جائے گی، عالم کفر کے بڑے بڑے سائنسدان اڈے پر کام کر رہے ہیں، فل سائنسی وقت کے سامنے نہتے اور بے بس مسلمانوں کا جذبہ ایمان بھی کچھ نہیں کرسکے گا۔ مسلمان جذبات میں بہہ کر کعبہ کے سامنے سینہ تان کر جان تو دے سکتے ہیں پر کعبہ کو نہیں بچا سکتے۔ 
اللہ نے انسان کو معمولی سے عقل عطا کی ہے، جس کے بل بوتے پر وہ فرعون اور نمرود کی طرح خدا سے ٹکر لینے پر نکل کھڑا ہوا ہے ۔ اللہ کے سامنے تمہاری سائنس پانی بھرتی نظر آئے گی، اگر ہم مسلمان بیت اللہ ، حرم پاک کو نہ بھی بچا سکے تو اللہ خود بچائے گا۔
کیسے بچائے گا؟ باس نے کہا۔
وقت بتائے گا، انسپکٹر ارسلان نے جواب دیا۔
یہ کیا ہیلی کاپٹر تو بجائے کسی شہر کے ویرانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بابر بولا۔
ہم زمین دوز راستے کے ذریعے سعودیہ میں موجود اپنے اڈے تک جائیں گے۔
ایک گھنٹے بعد ہیلی کاپٹر پہاڑی علاقے میں اترے، انہیں باہر نکلنے کا اشارہ کیا، جس جگہ ہیلی کاپٹر رکے تھے وہاں یہودیان کے فوجی ایک مقام پر چوکس کھڑے تھے۔
کیا یہ یہودیان ہے؟ انسپکٹر ارسلان نے پوچھا۔
ہاں۔۔۔ یہاں سے ایک خفیہ سرنگ سیدھی مختصر راستے سے سعودیہ جاتی ہے اور عین ہمارے ہیڈ کوارٹر کے اندر جاکر اس کا دوسرا منہ کھلتا ہے۔ باس نے بتایا۔
سو کے قریب دہشت گرد ان کے پیچھے چل رہے تھے وہ آگے آگے چل رہے تھے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں اس مرتبہ خطرناک رائفلیں تھیں، تیز رفتاری سے چلتے ہوئے وہ دو گھنٹے بعد ایک بہت بڑی عمارت میں داخل ہوئے ۔عین اسی وقت باس بڑی زور سے چونکا۔ اس نے پلٹ کر اپنے دہشت گردوں کی طرف دیکھا تھا اور چونک اٹھا تھا۔
اب بتاؤ مسٹر بگ دہشت گرد۔ بے وقوف ہم نکلے یا تم ۔تمہارے پیچھے آنے والے افراد تمہارے دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ میرے تربیت یافتہ ہیں یعنی ہنڈرڈفورس، میں نے دفتر سے نکلنے سے پہلے ہی آئی جی صاحب کو خاص اشارہ کیا تھا، ہنڈرڈ فورس سائے کی طرح ہمارے پیچھے رہی، جب تم دہشت گرد افراد کے ہمراہ نکلے ، مجھے اشارہ کردیا گیا تھا کہ دہشت گرد افراد کی جگہ ہم نے لے لی ہے، دھوکا تم اس لئے کھا گئے کہ یہ افراد ہمیشہ کبھی کسی خاص میک اپ میں نہیں رہتے، ہم نے کہا تھا نا کہ تم اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے، انسپکٹر ارسلان نے اسے گریبان سے پکڑتے ہوئے کہا۔
اگر آسان موت مرنا چاہتے ہو تو منصوبے کے بارے میں بتادو، جلدی کرو۔ اگر نہیں بتاؤ گے تو مار تو ہم تمہیں ویسے بھی دیں گے ہی اور معلومات بھی اب حاصل کر ہی لیں گے، کیونکہ ہیڈ کوارٹر تک تو ہم پہنچ ہی گئے ہیں۔
اب بتا دینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ جان تو تم ویسے بھی جاؤ گے، باس نے مری ہوئی آواز میں کہا۔
شاباش جلدی بتاؤ۔ انہوں نے کہا۔
آؤ میرے ساتھ ، اس نے آگے قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
کوئی چالاکی کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ وہ غرائے۔
وہ اس کے پیچھے چل پڑے، مختلف کمروں سے ہوتا ہو ا وہ انہیں لیکر ایک تہہ خانے میں داخل ہوا، تہہ خانے کے اندر پھر ایک خفیہ دروازہ تھا، اس دروازے سے وہ اندر داخل ہوئے ، دروازے پر نگران کھڑے تھے باس پر نظر پڑتے ہی ان کی رائفلیں جھک گئیں۔ اسی وقت ہنڈرڈ فورس کے ارکان نے ان پر ہتھیار تان دیئے، وہ خوف زدہ ہوگئے، انسپکٹر ارسلان نے ہنڈرڈ فوس کو خفیہ اشارہ کیا کہ نگرانوں کا کام تمام کردو، سامنے ایک چھوٹی سے زمین دوز تجربہ گاہ تھی، دس سائنسدان کرسیوں پر بیٹھے ہر طرف سے بے خبر اپنے کام میں مصروف تھے، نہایت خاموشی سے ہنڈرڈ فورس کے افراد سائنسدانوں کے سروں پر پہنچ گئے، ان کے رنگ اڑگئے ، انہوں نے سوالیہ نگاہوں سے باس کی طرف دیکھا۔
اس وقت تجربہ گاہ اور یہ عمارت انسپکٹر ارسلان کی تربیت یافتہ فورس، ہنڈرڈ فورس کے گھیرے میں ہے، ہنڈرڈ فورس کے افراد اوپر بھی پہنچ گئے ہوں گے ۔
اوپر کیا ہے ؟ انسپکٹر ارسلان نے اپنی پیغام رسانی گھڑی کا بٹن دباتے ہوئے پوچھا۔
سر اوپر تو کمرے ہی کمرے ہیں۔ کمروں میں لوگ رہتے ہیں یہ کرائے کی بلڈنگ ہے، یعنی یہاں مختلف لوگ کرائے پر رہتے ہیں۔ ہنڈرڈ فوس کے انچارج معاذ بن جبل نے بتایا۔
سب لوگوں کو قابو کرلو، کیونکہ ایسی جگہ پر کرائے دار کم اور باس کے آدمی زیادہ ہوتے ہیں، پھر بھی اچھی طرح چیک کرلو، سب کو نشانے پر رکھ کر باندھ لو، فون کے ذریعے حکومت سعودیہ سے رابطہ قائم کرو۔ انہوں نے حکم دیا۔
انہیں بھی اوپر لے چلو۔ جان محمد پستول نے فورس کو حکم دیا۔
آؤ بھی ہم بھی اوپر چلیں۔ انسپکٹر ارسلان نے باس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
ابا جان آپ نے باس سے منصوبے کے بارے میں تو پوچھا ہی نہیں ہے ۔ تو قیر نے کہا۔
رفعت کی طرف غور سے دیکھو، یہ آخر ملک کے بڑے سائنس دان کی بیٹی ہے اور خود بھی نیم سائنس دان تو ہے ، اس کی نگاہیں پڑھ لو، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
نیم سائنس دان خطرہ ایجاد۔ تمہاری نگاہوں میں کیا ہے ، توقیر نے پوچھا۔
اوپر چلو بتاتی ہوں۔ اس نے کہا۔
تجربہ گاہ کی اچھی طرح تلاشی لے کر وہ سب اوپر آگئے، ہنڈرڈ فورس بھی آگئی، نیچے خالی تجربہ گاہ تھی، اوپر تمام افراد کو جکڑا جا چکا تھا۔
سر ۔۔۔ اعلیٰ حکام سے رابطہ قائم ہوچکا ہے ، اپنا تعارف میں نے کرادیا تھا، جلد ہی یہاں پولیس اور فوج پہنچنے والی ہے، ان کے ہمراہ سربراہ مملکت بھی آرہے ہیں ، وہ بہت حیران ہیں کہ ایسی خفیہ تجربہ گاہ موجود ہے اور ان کو علم تک نہیں، معاذ بن جبل نے کہا۔
ہاں بھئی رفعت۔ انسپکٹر ارسلان نے رفعت کی طرف دیکھا۔
انکل تجربہ گاہ سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ یہ لوگ کسی زہریلی گیس سے لوگوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
تمہارا اندازہ بالکل درست ہے، ہمارا پروگرام یہ تھا کہ عین حج کے موقع پر اس تجربہ گاہ سے ایک مصنوعی ہو اچلائی جائے، وہ ہوا قدرتی ہوا میں شامل ہوکر پورے عرب میں پھیل جائے ، اس میں شامل زہریلی گیس ، ایسی گیس جو آج تک کوئی سائنس دان دریافت نہیں کرسکا، پوری دنیا کے پاس اس کا کوئی توڑ نہیں ہے، مسلمان عین وقت پر کچھ بھی نہیں کرسکیں گے، اور تمام حجاج سمیت بقایا لوگ بھی یعنی مکہ اور مدینہ کے باشندے بھی زہریلی گیس کا شکار ہوجائیں گے، مسلمانوں کی لاشیں بکھر جائیں گی، عین اسی وقت خفیہ راستوں سے ہمارے ملک یہودیان کی فوج سعودیہ میں داخل ہوکر کعبہ اور مسجد نبوی کے اندر گھس جائے گی، مکمل قبضہ ہونے کے بعد وہ کام کیا جائے گا جو کہ اصل منصوبہ ہے ۔ باس نے بات درمیان میں روک دی۔
رک کیوں گئے ہو دشمن خدا، دشمن رسول، دشمن اصحاب رسول، دشمن ازواج رسول، میں جانتا ہوں تمہارا پروگرام کیا ہے، تمہارا پروگرام بھی وہی ہے جو ماضی میں ابرہہ کا تھا، تمہارا مقصد خانہ کعبہ کو آزاد کردینا ہے ، مکہ اور مدینہ کو آزاد شہر بنا دینا ہے تاکہ وہاں ہر سال حج کی بجائے میلہ لگا کرے جیسا کہ پاک لینڈ میں درباروں پر لگتا ہے ، ناچ گانا ہو، سرکس ہو، قوالی ہو، دھمال ہو، مٹھائی تقسیم ہو، یعنی جو کچھ ہمارے ملک میں بزرگوں کے مزاروں پر ہوتا ہے وہی کچھ تم یہاں چاہتے ہو۔ ایک خواہش تمہاری یہ بھی کہ تم اپنے لیڈر خامان کی قد آور تصاویر ، بت بنا کر خانہ کعبہ میں لگا نا چاہتے ہو۔ اس خانہ کعبہ میں جہاں سے فتح مکہ کے بعد آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کے ہمراہ داخل ہوکر عین خانہ خدا کے اندر اور باہر سے تمام بت اور تصاویر ہٹادی تھیں، بت توڑ دیئے تھے۔ یہ آپؐ کی پرانی خواہش تھی ۔ آج تم اسی کعبہ میں بت آویزاں کرنا چاہتے ہو، جس خانہ کعبہ سے اللہ کے پاک پیغمبر نے بٹ ہٹائے تھے، تم یہ چاہتے ہو کہ خانہ کعبہ پر قبضہ ہو جائے، وہاں ہر سال حج کی بجائے شرک وکفر پر مبنی میلہ لگے، ایک طرف تو تم اس میلے کے ذریعہ دولت کے ڈھیر کماؤ گے، دوسری طرف مسلمانوں کو جیبوں سے خالی کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان جیسی دولت سے بھی خالی کردو گے۔ پوری امت مسلمہ کو کفروشرک کے ان اندھیروں میں غرق کردو گے جن میں ڈوب کر مکّے کی بِگ پاور ابو جہل اور اس کی پارٹی دوزخ کے گڑھے میں جاگری۔ یہ تمہارا پروگرام ہے ۔ایک اور بات تم جس عقیدے سے تعلق رکھتے ہو، اس کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ تمام دنیا میں صرف تمہارے روحانی پیشوا کی حکومت ہوسکتی ہے ، اس کے علاوہ جہاں کہیں بھی کسی اور کی حکومت ہے وہ سب لوگ ظالم ، جابر، غاصب ، کافر ، مرتد وبے ایمان اور دوزخی ہیں۔ یہ تمہارا نظریہ ہے ۔ اسی کے تحت تم سعودیہ پر قبضہ کرنے کے بعد تمام عالم اسلام پر قبضہ کرنا چاہتے ہو، کیا تم مسلمان ہو؟ نہیں تم یہودیت کی روحانی اولاد ہو۔ یہودیت کا چرغہ ہو، تم اسلام کی چادر اوڑھ کر اسلام کی جڑیں کاٹ رہے ہو، پھر بھی دنیا تمہیں مسلمان تصور کرتی ہے اور مومن مسلمان ، حیرت ہے لوگوں کی عقلوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ان لوگوں کو بھی مسلمان کہتے ہیں جو اللہ کے گھر کو بت خانہ بنانا چاہتے ہوں۔ 
یا درکھو! تم اپنے ناپاک ارادے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکو گے، اس لئے کہ ہمارے نبی ، پیارے نبی آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ ! میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بننے دینا، یعنی میلے کی جگہ نہ بننے دینا، مطلب یہ ہے کہ میری قبر پر میلہ نہ لگنے دینا، ان لوگوں کو بھی حضور پاک کے اس فرمان پر غور کرنا چاہئے کہ جب میلہ کسی پیغمبر کی قبر پر نہیں لگ سکتا تو پھر یہ میلے کیسے؟ کیا یہ دین کا حصہ ہیں؟ نہیں یہ جہالت کا سمندر ہے جس میں مسلمان ایسے ڈوبے ہیں کہ سر ہی نہیں بھار رہے۔ انسپکٹر ارسلان نے پوری وضاحت کردی۔
وہ خاموش ہوئے ہی تھے کہ پولیس کی گاڑیوں کے سائرن سنائی دیئے، سربراہ مملکت کے ہمراہ اعلیٰ آفیسر اندر داخل ہوئے ، حاکم وقت بڑی گرم جوشی سے ان سے ملے، انہیں تمام بات تفصیل سے بتائی گئی، وہ دھک سے رہ گئے، تمام مجرموں کو جیل بھیج دیا گیا، ارسلان پارٹی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ گئی، سربراہ مملکت دوسرے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوگئے، پولیس ، فوج اور ہنڈرڈ فورس کے جانے کے بعد انسپکٹر ارسلان نے اپنے ملک کے پروفیسر لقمان کا بنا ہوا خطرناک سکہ بم عمارت پر گرا دیا۔ ان کے جان کے بعد ٹھیک پانچ منٹ بعد تخریبی مرکز تباہ ہوگیا، وہ ایوان صدر کے سامنے اترے، ارسلان پارٹی اور ہنڈرڈ فورس کو بڑی عزت سے اندر لے جایا گیا، انسپکٹر ارسلان نے بیگم ارسلان اور بچوں کو ان کے نانا کے ہاں بھیج دیا، یہاں کے گورنر ان کے سُسر تھے، ان کی شادی اس ملک میں ہوئی تھی۔
آپ کے ملک کے حالات بہت خراب ہیں پورا ملک ’’ش‘‘ گروپ کے ظلم کا شکار ہورہا ہے ، محب وطن افراد کو چن چن کر گرفتار کر کے جیلوں ڈالا جارہا ہے ، تشدد کیا جارہا ہے ، دوسری طرف پوری دنیا میں یہ اعلان ہوچکا ہے کہ ٹھیک ایک ماہ بعد مقررہ تاریخ کو پاک لینڈ کے دارالحکومت کے ایک وسیع علاقے میں ایک کھلی عدالت لگائی جائے گی، جن میں ملک کے تمام بڑے بڑے جج، مسلمان ممالک کے سربراہ اور جج کفار ممالک کے سربراہ اور جج بھی شامل ہوں گے۔ مولانا جھنگوی کو ’’ ش‘‘ گروپ نے چیلنج کردیا ہے کہ آؤ میدان میں فیصلہ ہوجائے گا۔ ادھر جھنگوی نے کہا ہے کہ اگر میں تمہیں دنیا بھر کے ججوں کے سامنے ’’کافر ‘‘ثابت نہ کروں تو مجھے اسی وقت کروڑوں مسلمانوں اور کافروں کے سامنے گولی مار دی جائے، میری جماعت چپ چاپ گھروں کو چلی جائے گی، کوئی ہنگامہ نہیں ہوگا، لاش تک بھی وہ لوگ نہیں لے جائیں گے، تمہیں اجازت ہے لاش کے ساتھ جو دل چاہے سلوک کرنا، یہ حالات ہیں۔ ان حالات میں آپ لوگ وطن واپس نہیں جاسکتے ، لہذا جس وقت تک آپ کے ملک میں ’’ ش‘‘ گروپ کی حکومت ہے آپ یہیں رہیں گے، کیونکہ آپ کو حکومت پاک لینڈ ملک بدر کرچکی ہے ، اب آپ اپنے ملک میں داخل نہیں ہوسکتے، فکر کی کوئی بات نہیں یہ بھی آپ کا ہی ملک ہے ۔ نبی کے قدموں میں رہو، اللہ کے گھر میں سجدے کرو، سربراہ مملکت نے کہا۔
بہت بہت شکریہ اللہ نے چاہا تو جھنگوی کو فتح حاصل ہوگی، اگر فتح ہوگئی تو پھر ’’ش‘‘ گروپ پوری دنیا میں ذلیل ہوکر رہ جائے گا، پھر کبھی بھی ’’ ش‘‘ گروپ بیت اللہ کے سامنے مظاہرہ نہیں کرسکے گا۔ پھر کبھی ’’ش‘‘ گروپ وہ ناپاک جسارت نہیں کرسکے گا جس کے خلاف جھنگوی کام کررہا ہے ۔
ارسلان صاحب۔ انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا، کل ملک بھر میں آپ کے اس کارنامے کا اعلان کردیا جائے گا جو آپ نے لاکھوں ، کروڑوں مسلمانوں پر کیا ہے ، یعنی ’’ش‘‘ گروپ کی سازش کو نیست ونابود کردیا ہے، اگر کے وان کی فوج نے کعبہ کی طرف پیش قدمی کی ، بیت اللہ پر چڑھائی کی، حرم پاک میں داخل ہونے کی کوشش کی تو پھر ہم انہیں ماضی کے مسلمان بن کر دکھا دیں گے، ہم جان تو قربان کرسکتے ہیں پر حرمت کی جگہ پر ہنگامہ برداشت نہیں کرسکتے۔ سربراہ نے جذباتی لہجہ میں کہا۔
اب ہمیں اجازت دیجئے ہم آرام کرت ہیں۔ انسپکٹر ارسلان نے کہا۔
بڑے شوق سے، اپنے سسر کے ہاں رہیں گے یا یہاں بندوبست کیا جائے؟
یہاں رہ لیں یا وہاں ، ایک ہی بات ہے ۔
ان سے رخصت ہوکر وہ کاروں میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے، ہنڈرڈ فورس کے لئے پولیس ریسٹ ہاؤس میں خصوصی انتظام کیا گیا، چمکیلی سڑکوں پر وہ اڑے جارہے تھے، ایک خوبصورت محل کی گھنٹی بجی، دروازہ کھلا اور انہیں بڑے احترام سے اندر لے جایا گیا، سب ایک دوسرے سے گرم جوشی سے ملے، کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی، بیگم ارسلان اپنی والدہ کے قریب بیٹھی تھیں، اچانک انسپکٹر ارسلان ایک خیال آنے پر چونک اٹھے، انہوں نے فون کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
خیریت تو ہے ابا جان؟ بابر نے پوچھا۔
ٹھیک ایک ماہ بعد ایک کھلی عدالت لگے گی، اس میں جھنگوی پوری قوم کے سامنے ’’ش‘‘ گروہ کو ’’کافر‘‘ ثابت کریں گے، فیصلہ ہوگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ چالاک اور غیار دشمن عین وقت پر مسلمانوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کردے، انہوں نے کہا۔
اوہ۔۔۔ واقعی۔۔۔ رفعت چونک اٹھی۔
یہ ہوسکتا ہے ۔ بابر نے بھی کہا۔
کیا ہوسکتا ہے بھائی کچھ مجھے بھی تو پتا چلے، تو قیر نے پوچھا۔
اپنے دماغ سے کام لے ۔
دماغ ہوتا تو تم سے کیوں پوچھتا ۔ اس نے جواب دیا۔
انسپکٹر ارسلان نے جلدی سے پاک لینڈ میں کسی کو فون کیا۔











فیصلہ
ملک کے کروڑوں مسلمان ایک عظیم مقصد کے لئے دارالحکومت ملت میں جمع تھے، ایک کھلی عدالت لگی ہوئی تھی، دائیں طرف مسلمانوں کا جم غفیر تھا، بائیں طرف دنیا بھر کے ’’ش‘‘ گروہ کے چند لاکھ افراد کھڑے تھے، ’’ش‘‘ گروہ کے عالم بائیں طرف کھڑے تھے، مسلمانوں کی طرف سے یوں تو بے شمار ملکی علمائے کرام موجود تھے لیکن خصوصی آمد مولانا جھنگوی کا انتظار تھا۔ پولیس اور فوج لاکھوں کی تعداد میں اسلحہ سے لیس چاروں طرف اور دونوں فریقوں کے درمیان چوکس کھڑی تھی۔ بیرونی مہمان یعنی سربراہانِ مملکت آچکے تھے، تمام جج حضرات بھی آچکے تھے، ہر ملک کے صدر کے ہمراہ اس کا مترجم ساتھ تھا۔ ’’ش‘‘ گروہ کی طرف سے ملک کے وان کے علماء اور سربراہ موجود تھے۔ اچانک ایک شوربرپا ہوا، مسلمانوں میں ہل چل مچی، نعرہ تکبیر بلند ہوا، کروڑوں مسلمانوں کے ہاتھ بلند ہوئے ،اللہ اکبر کی آواز گونجی، مشرکوں اور کافروں کے دل ہل گئے، دوسری طرف سے ’’ش‘‘ گروہ نے مشرکانہ نعرے بلند کئے، مسلمان اللہ سے مدد مانگ رہے تھے جبکہ ’’ش‘‘ گروہ اللہ کے ایک بندے سے مدد مانگ رہے تھے۔(انجمن۔س،ص) کے خاص افراد ہاتھوں پر ایک لکڑی کازرد رنگ کا صندوق اٹھائے آتے نظر آئے، ان کے سروں پر سرخ ٹوپیاں تھیں، کروڑوں مسلمانوں کے سروں پر سرخ ٹوپیاں سرخ نظر آرہی تھیں۔(انجمن۔س،ص) کا سیلاب اُمڈ آیا تھا سیلاب حق ۔خاص افراد عدالت کے کٹہرے تک آئے اور پولیس کی نگرانی میں صندوق ، زرد رنگ کا صندوق جس پر تالا لگا ہو ا تھا، تالا کھولا اور چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوگئے، تالا کھلتے ہی کروڑوں افراد چونک اٹھے۔ پوری دنیا کے ٹیلی ویژن یہ کارروائی دکھا رہے تھے، دارالحکومت میں بھی جگہ جگہ ٹی وی سیٹ نصب تھے، بہت سے افراد کو عدالت کا کٹہرہ اور جج صاحبان نظر نہیں آرہے تھے، وہ ٹی وی پر دیکھ رہے تھے۔صندوق کا ڈھکنا اٹھا اوراس میں سے مولانا جھنگوی باہر نکلتے نظر آئے۔ سب حیران تھے کہ یہ آنے کا کون سا طریقہ ہے، جھنگوی کے چہرے پر ایک عجیب مسرت کی لہر نظر آرہی تھی، آج پندرہ سالہ محنت رنگ لاتی نظرآرہی تھی، شیر اسلام عدالت کے کٹہرے میں تشریف لائے، ان کے بالمقابل ’’ش‘‘ گروہ کے بڑے بڑے عالم آئے، مولانا جھنگوی نے چند منٹ دعا مانگی ،درود شریف پڑھا جو کہ نماز میں پڑھا جاتا ہے ، پھر عدالت سے بولنے کی اجازت چاہی، ایک بہت بڑے جج نے ایک فائل کھولی اور بولے:
’’
جس بنا پر یہ عدالت لگی ہے اگر آپ ثابت نہ کرسکے تو آپ کو اس جگہ سب کے سامنے گولی سے اڑا دیا جائیگا۔بات شروع کریں۔ مخالف فریق آپکے بعد گفتگو کرے گا اور اپنے آپکو ثابت کرے گا،جج صاحب نے کہا‘‘۔
شیر اسلام، مقرر شعلہ بیان، سرپرست اعلیٰ انجمن س۔ص ، مولانا جھنگوی نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور اللہ ہی سے مدد طلب کی زبان حرکت میں آئی۔
معزز عدالت ، بیرونی سربراہانِ مملکت اور غیور مسلمانو! سب سے پہلے تو میں آپ کی حیرت دور کردینا چاہتا ہوں کہ میں لکڑی کے صندوق میں بند ہوکر کیوں آیا، مجھے کل کسی نے فون پر خبردار کیا کہ ہوسکتا ہے مکار، دشمن تمہیں عدالت تک جانے ہی نہ دے اور راستے میں صاف کردے، اور پھر شور مچائے کہ چلو جھنگوی نہ سہی ان کے دوسرے علماء تو موجود ہیں وہ مقابلہ کرلیں۔ اس خیال کے تحت میں اس طریقے سے آیا ہوں، کہ کسی کو پتا تک نہیں چلا کہ صندوق میں کیا ہے ، پولیس نے صندوق چیک کیا تو اوپر کتابوں کا ڈھیر نظر آیا، کتابوں کے نیچے میں بیٹھا تھا۔
اب میں آتا ہوں اپنے اس مشن کی طرف جس کے حصول کے لئے آج اللہ کے فضل وکرم سے میں یہاں کھڑا ہوں، یہ میری خواہش تھی کہ یہ کام میرے ہاتھوں اسی طرح انجام کو پہنچے جس طرح آج سے سو سال پہلے ایک شخص نے ایک عظیم کام کا بیڑا اٹھایا تھا ، وہ اپنے مقصد میں اپنی زندگی میں تو کامیاب نہ ہوا، لیکن اس کا مشن اس کے مرنے کے بعد پورا ہوگیا۔ آ ج سے پندرہ سال پہلے میں مدرسہ سے قرآن وسنت کی تعلیم مکمل کر کے پاک لینڈ کے ضلع جھنگ پور کے ایک محلہ صحابہ نگر ، فاروق اعظم مسجد میں بطور خطیب آیا، میری آواز میں ایک عجیب اثر قدرت نے رکھ چھوڑا تھا۔ میں نے اپنی خطابت کاآغاز کیا، مجھے کوئی نہیں جانتا تھا، نہ خود مجھے علم تھا کہ اللہ مجھے اس عظیم کام کے لئے چن چکا ہے، میر ی نظر سے آج سے پندرہ سال پہلے ایک زہریلا لڑیچر گزرا، لٹریچر پڑح کر میں رو پڑا اور پھر میں نے مزید اس لٹریچر کو پڑھا، میں حیرت زدہ رہ گیا کہ د س کروڑ مسلمانوں کے اس ملک میں ایسا خطرناک لٹریچر موجود ہے اور اس پر کوئی آواز نہیں اٹھارہا۔ چنانچہ اس کا م کا بیڑا میں نے اٹھایا، ہتھکڑی پہنی، بیڑی پہنی، تھانے گیا، جیل کاٹی، تشدد سہا، یہاں تک کہ برہنہ کرکے اس انداز میں مارا گیا کہ پاخانہ منہ کے راستے نکل گیا، خود مجھے بھی یقین ہوچلا تھا کہ اب میں زندگہ نہیں رہوں گا، لیکن ساتھ ہی ساتھ مجھے اپنے رب پر یقین تھا کہ جب تک وہ نہ چاہے مجھے کوئی نہیں مارسکتا ، میں بچ گیا اور باہر آکر پھر اپنے مشن پر ڈٹ گیا۔ ’’ش‘‘ گروہ نے مجھے پھانسی کے تختے پر چڑھانے کے لئے بہت منصوبے بنائے، قتل کے پروگرام بنائے گئے، لیکن سچائی پر مبنی جماعتیں اپنے مشن کے انجام تک بالاخر پہنچ ہی جایا کرتی ہیں، آج میں اور میری جماعت بھی اپنے مشن کے انجام تک آچکی ہے۔
آگے چلنے سے پہلے یہ بتانے سے پہلے کہ وہ لٹریچر کیا ہے ؟ میں وہ بیان کرنا چاہتا ہوں جس کے بغیر بات کا مزہ نہیں آئے گا، توجہ کیجئے! آج سے پندرہ سو سال پہلے مکہ کی سرزمین پر ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دین حق کا اعلان کیا، وہ اکیلے تھے ، دوسری طرف تمام کفار طاقتیں، آہستہ آہستہ لوگ ایمان لاتے چلے گئے، مسلمانوں کی ایک جماعت بن گئی جو بھی شخص ایمان کی نظر سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر دل سے ایمان لاتا ہے اسے صحابی کہتے ہیں۔ اللہ کے رسول نے قرآن پڑھایا، ایک جماعت صحابہؓ کی تیار کی ، تربیت دی، صحابہؓ نے دین اسلام کے لئے آقا پر اپنے بچے قربان کردیئے، مال قربان کردیئے، جانیں قربان کردیں،اپنے آپ کو جلتے ہوئے تنوروں میں، دیگوں میں ڈلوایا، پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہ چھوڑا۔ بلالؓ نے ہاتھوں پر کیل گڑوالئے پر محمد کا دامن نہ چھوڑا، بلالؓ نے اپنے جسم کی چربی انگاروں پر لیٹ کر نکلوالی، تپتی ہوئی ریت پر لیٹ گیا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہ چھوڑا۔ خبیبؓ جلتے ہوئے انگاروں پر لیٹ گئے پر آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہ چھوڑا۔ سمعیہؓ کو اونٹوں کے ساتھ باندھ کر ابوجہل نے دو ٹکڑے کردیا، پر سمعیہؓ نے آقا کا دامن نہ چھوڑا ۔ ان صحابہؓ کی قربانیاں دیکھ کر وفاداریاں دیکھ کر اللہ نے قرآن میں باربار ان سے راضی ہونے کا اعلان کیا کہ میں ان سے راضی ہوگیایہ مجھ سے راضی ہوگئے۔ ابوبکرؓ، عمرؓ،عثمانؓ،علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، حسنؓ، حسینؓ، معاویہؓ، خالد بن ولیدؓ، عمر بن عاصؓ ،غرض کہ تمام صحابہؓ نے محمد کے لئے جان ومال قربان کردیا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تربیت یافتہ فورس نے غزوہ بدر میں کافروں کے چھکے چھڑا دیئے، خندق میں مزا چکھایا، اُحد میں لڑے، حنین میں لڑے اور بہت سی جنگیں دنیا کے سب سے بڑے جرنیل آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کمان میں لڑیں۔ کافروں کے سروں کے ڈھیر لگادیئے۔ بالاخر مکہ فتح ہوا اور اسلام چاروں طرف پھیل گیا، صحابہ کرام پوری دنیا میں اسلام کی دعوت لیکر نکل گئے۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جن کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے، جب یہودیت نے یہ دیکھا کہ جس اسلام کا نام ونشان ہم مٹانا چاہتے تھے وہ تو پھیل گیا ہے اب ہم تلوار کے ذریعے اس اسلام کو ختم نہیں کرسکتے ، چنانچہ یہودیوں نے وقت کا انتظار کیا، زیر زمین چلے گئے، آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ اول بلافصل کے بعد، حضرت عمر فاروقؓ کے بعد حضرت عثمانؓ کا دور خلافت آیا، آپ کے دور خلافت میں یہودیت کے گھر سے ایک چالاک اور مکار، یہودی عبداللہ بن سبا نکلا، اس نے مدینے میں آکر جھوٹ موٹ اسلام قبول کیا اور اپنے ناپاک مشن کا آغاز کردیا، اس نے پروپیگنڈہ کیا کہ صحابہ غلط ہیں، منافق ہیں، کافر ہیں، ابوبکر کی خلافت غلط تھی، عمر کی خلافت غلط تھی، عثمان کی خلافت غلط تھی، خلافت علی کا حق تھا، یہ قرآن غلط ہے، یہ نماز غلط ہے ، یہ زکوٰۃ غلط ہے، یہ حج غلط ہے ، یہ تمام دین غلط ہے اور اس کے مقابلے میں اس نے اپنا من گھڑت دین پیش کیا کہ اللہ نے قرآن دیا جبرئیل کو، جبرئیل نے قرآن دیا محمد کو، محمد نے قرآن دیا علی کو، آگے علی نے قرآن اپنے دل میں رکھا، جب ابوبکر کی حکومت آئی تو حضرت علیؓ ان کے پاس قرآن لیکر گئے کہ اس قرآن کو نافذ کرو تو تینوں خلفاء نے اپنا قرآن پیش کیا اور نافذ کیا۔ چنانچہ حکومت کافروں کے ہاتھوں میں تھی اس لئے قرآن حضرت علیؓ سے چلتا ہوا امام مہدی تک پہنچ گیا، اب قرآن امام مہدی کے پاس ہے اور وہ اس قرآن کو لیکر قیامت کے قریب اس غار سے نکلیں گے جس غار سرا من را میں وہ چھپے ہوئے ہیں، پھر اصل قرآن نافذ کیا جائے گا، اسلام نافذ ہوگا۔ یہ ہے ابن سبا کا مشن اور وہ اپنے اس مشن میں کامیاب ہوگیا۔
منافقوں کی ایک بھاری تعداد اس کے ساتھ مل گئی اور ’’ش‘‘ گرو ہ بن گیا، اصل مقصد ابن سبا یہودی کا یہ تھا کہ صحابہ کے کردار کو داغ دار بنا کر پیش کیا جائے تاکہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ جب یہ صحابہ ہی غلط ہیں تو پھر ان کا دیا ہوا دین جو انہوں نے آقا سے لیا ہے وہ کیسے درست ہوسکتا ہے؟ یہ پروگرام تھا ابن سبا یہودی کا اسلام کو ختم کرنے کے لئے ، پھر اسی گروہ ’’ش‘‘ نے خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ کو سازش کر کے شہید کیا ، اسی ’’ش‘‘ گروہ نے حضرت علیؓ ، حضرت حسنؓاور حضرت حسینؓ کو دھوکے سے کربلا کے میدان میں بلوا کر ایک طرف بیٹھ کر شہید کر ڈالا، آج اسی ’’ ش‘‘ گروہ کی روحانی نسل میرے مد مقابل عدالت کے کٹہرے میں کھڑی ہے، جو مشن ابن سبا لے کر آیا تھا آج اسی مشن پر یہ نئے انداز میں کام کر رہے ہیں، ہمارے ملک میں کروڑوں کے حساب سے ایسی کتابیں لکھی جاتی ہیں جس میں محمد، صحابہ اور ازواج نبی کو ماں، بہن ، بیٹی اور بیوی کی ننگی گالیاں دی جاتی ہیں۔ آپ بتائیں اگر ملک بارٹش کا سلمان رشدی گستاخ رسول ہونے کی بنا پر پوری مسلمان کی نگاہ میں کافرومرتد ہے اگر قادیانی محمد کو آخری نبی تسلیم نہ کرنے پر تمام دنیا کے مسلمانوں کے نزدیک کافرومرتد ہیں اور عدالت مرزائیوں کو کافر اور اقلیت قرار دے چکی ہے تو پھر جو لوگ حضرت آدمؑ سے لیکر حضرت محمد رسول اللہ ، آپ کے صحابہ آپ کی بیویوں یعنی ازواج مطہرات کو گندی گالیاں ،ننگی گالیاں زبان سے اپنے اجلاسوں میں دے اور کتابوں میں سرعام لکھیں اور وہ کتابیں ہمارے ملک میں کروڑوں کے حساب سے چھپیں اور بک سٹالوں پر فروخت ہوں، تو کیا یہ لوگ آپ کی نظر میں مسلمان ہیں؟ جو کچھ بدنامِ زمانہ سلمان رشدی کی کتاب شیطانی بکواس میں تحریر ہے اگر وہی کچھ میں آپ کو ’’ش‘‘ گروہ کی کتابوں میں ابھی اور اسی وقت دکھا دوں تو کیا پھر بھی ’’ش‘‘ گروہ مسلمان کہلانے کا حق دار ہے ؟
نہیں۔۔۔۔۔۔ کروڑوں آوازیں ابھریں۔
سنیئے! لمبی چوڑی بات ختم کرتے ہیں، سیدھی سادھی بات کرلیتے ہیں، بدنام زمانہ سلمان رشدی ملعون کافر کی کتاب شیطانی بکواس منظر عام پر آئی تو پوری دنیا اسلام میں شور مچ گیا، پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے، عین احتجاج کے موقع پر ملک کے وان کے ’’ش‘‘ گروہ کے دنیا بھر کے لیڈر صدر خامان کے رُشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا اور بھاری انعام اس کے سر کی قیمت رکھا۔ اب غور کیجئے اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ’’ش‘‘ گروہ کے ملک کے وان کے موجودہ سربراہ اور عام ’’ش‘‘ شروہ کے افراد اور علماء کرام سے پوچھ لیجئے کہ آیا سلمان رشدی ان کے نزدیک کافر ہے یا مسلمان؟ جو یہ کہیں وہ نوٹ کرلیجئے۔
آپ بتائیں کیا آپ کے نزدیک سلمان رشدی ملعون مسلمان ہے؟ عدالت کے سب سے بڑے جج نے سوال کیا۔
نہیں۔ ’’ش‘‘ گروہ کی طرف سے ان کے عالم نے جواب دیا۔ بس نوٹ کیجئے۔
سلمان رشدی گستاخ رسول، گستاخ صحابہ، گستاخ ازواج نبی ہونے کی بنا پر کافر ومرتد ہے تو پھر آپ رشدی اور میرے ملک کے ’’ش‘‘ گروہ کی کتابوں کو آمنے سامنے رکھئے ، اگر رشدی اور ’’ش‘‘ گروہ کی تحریروں میں مطلب ایک ہی نظر نہ آئے تو مجھے ابھی اور اسی وقت گولی مار دی جائے۔ اگر دونوں کی تحریریں ایک ہی ہیں تو پھر ’’ ش‘‘ گروہ کو ملک کے قانون کے میں غیر مسلم اقلیت اور کافر قرار دیا جائے۔ گستاخ رسول، گستاخ صحابہ، گستاخ ازواج نبی، گستاخ انبیاء کی سزا قتل، قتل اور صرف قتل تجویز کی جائے۔ سزائے موت سے کم کوئی سزا گستاخ رسول کو نہ دی جائے تاکہ آئندہ کوئی ذلیل ایسی حرکت کم از کم پاک لیند کی سرزمین پر نہ کرسکے، جہاں دس کروڑ غیور مسلمان رہتے ہیں ۔ اب فیصلہ میں عدالت پر چھوڑ تا ہوں، اگر فیصلہ درست نہ ہوا تو پھر بھی میں اور میری جماعت گستاخ رسول کو، گستاخ اصحاب کو ، گستاخ ازواج رسول کو پاک لینڈ کی سڑکوں پر دندناتے ہوئے تبرا کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے پھر ایسے گستاخوں کے ہاتھ ہم خود میدان میں نکل کر کاٹیں گے، ان کی زبانیں قینچیوں سے کتر دی جائیں گی، سر قلم کردیئے جائیں گے۔ ہم عزت رسول کے لئے دفاع صحابہ کے لئے جان تو قربان کرسکتے ہیں پر تبرے کی زبان برداشت نہیں کرسکتے، یہی وہ مشن ہے جس کے لئے میں اور میری جماعت تشدد برداشت کرتی چلی آرہی ہے۔
کتابیں پیش کی جائیں، عدالت تمام کتابوں کا مطالعہ کر کے پھر فیصلہ دے گی، اگر سلمان رشدی اور ’’ش‘‘ گروہ کی کتابوں میں کوئی فرق نہ ہوا تو پھر ’’ش‘‘ گروہ کو کافر اور اقلیت قرار دے دیا جائے گااور ہمیشہ کے لئے قانون میں یہ لکھ دیا جائے گا کہ گستاخ رسول ، گستاخ صحابہ رسول، گستاخ ازواج رسول کی سزا صرف اور صرف قتل ہے ۔ چاہے کوئی لکھ کر گستاخی کا مرتکب ہو یا تحریر کے طور پر یا اشاروں اور کتابوں میں گالی کا مرتکب ہو اور اگر ’’ش‘‘ گروہ کی کتابیں ایسی نہ ہوئیں جیسی رشدی کی ہے تو پھر مولانا کو یہیں عدالت کے کٹہرے میں گولی مار دی جائے گی۔ کیا آپ سب کو دونوں فریقوں کو یہ بات منظور ہے؟ بڑے جج نے پوچھا۔
منظور ہے۔ کروڑوں آوازیں لہریں۔
کتابوں کا مطالعہ شروع ہوا، جوں جوں جج صاحبان ’’ش‘‘ گروہ کی کتابیں پڑھ رہے تھے توں توں ان کے چہروں کا رنگ بدلتا جارہا تھااور بالاخر ان کے چہرے مارے غصے کے سرخ ہوگئے، انار کی مانند۔ آخر کو وہ بھی مسلمان تھے ، خونی نگاہوں سے جج صاحبان نے ’’ش‘‘ گروہ کی طرف نفرت آمیز انداز میں دیکھا اور پھر انچارج جج نے تمام ججوں کے مشورے کے بعد فیصلہ سنایا۔
’’
ش‘‘ گروہ اور رشدی کی کتاب میں درج تحریر میں کوئی فرق نہیں ہے، لہذا عدالت پاک لینڈ ’’ش‘‘ گروہ کو غیر مسلم اقلیت اور کافر قرار دینے کے ساتھ ساتھ تمام رائٹروں کو سزائے موت کا حکم دیتی ہے، اگر آئندہ کسی نے ایسی جسارت ناپاک کی تو اسے بھی پھانسی کے تختہ پر لٹکادیا جائے گا۔ ’’ش‘‘ گروہ کی ہر اس عبادت پر پابندی عائد ہے جو اسلام کے خلاف ہوگی، تمام کتابیں مارکیٹ سے اٹھا کر ضبط کرلی جائیں گی، اگر آئندہ کسی پبلشر نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہ اور امہات المومنین رضی اللہ تعالی عنھا کے خلاف کوئی کتاب چھاپی تو مصنف کے ساتھ ساتھ پبلشر کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔
عدالت کے فیصلے کے پر جھنگوی نے آسمان کی طرف دیکھا اور اللہ کا شکر ادا کیا، آج پندرہ سال بعد وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوا تھا، فضا اللہ اکبر ، نعرہ رسالت اور شان صحابہ کے نعروں سے گونج رہی تھی، لوگ رخصت ہورہے تھے، ’’ش‘‘ گروہ سرجھکائے جارہا تھا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام جیت گئے تھے، عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم فتح پا چکے تھے، دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم شکست کھا چکے تھے، راتوں رات ’’ش‘‘ گروہ کی حکومت کا تختہ الٹ گیا اور نیک ، اسلام کا درد رکھنے والے افراد اوپر آگئے، ملک میں نیا سورج طلوع ہوتے ہی اسلامی نظام کے نفاذ کا اعلان ہوچکا تھا۔ خلافت راشدہ کے نظام کا نفاذ ہوچکا تھا، جس مقصد کے لئے یہ ملک لاکھوں قربانیاں دے کر خون کا نذرانہ دے کر حاصل کیا گیا تھا وہ نظام نافذ ہوچکا تھا، بانی پاک لینڈ قائد اعظم محمد علی جناح جس نظام کو ملک میں نافذ کرنا چاہتے تھے وہ ہوچکا تھا، قائد اعظم محمد علی جنا ح کی خواہش تھی کہ میں ملک میں حضرت عمرؓ کا نظام حکومت نافذ کرو، لیکن وہ جلد اپنے اللہ کو پیارے ہوگئے، اور ان کے بتائے ہوئے گلشن میں وطن کے دشمنوں نے کانٹے بونے شروع کردیے، کانٹے اگ کر جوان ہوئے تو ملک دوٹکڑے ہوگیا، کانٹے مزید اُگے تو ملک کا ایک صوبہ لڑکھڑانے لگا، اللہ ہی مالک ہے اس گلشن کا۔
نیاسورج ابھرا۔ پاک لینڈ کے جیالے دارالحکومت ملت کے ائیر پورٹ پر خصوصی طیارے سے اترے، جونہی انہوں نے ائیر پورٹ پر قدم رکھا اسلام کی خوشبو جو چاروں طرف پھیل چکی تھی ان کے نتھنوں سے ٹکرائی ۔ وہ جھوم اٹھے۔


No comments: